بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بحری سفر میں قصر نماز کا حکم


سوال

1۔قصر نماز کب واجب ہوتی ہے؟

2۔بحری جہاز پر سفر میں قصر نماز کا کیا حکم ہے؟

3۔کراچی بندر گاہ سے کتنی دوری پر نماز قصر ہوگی؟

4۔جہاز کبھی ایک دن کے لیے اور کبھی زیادہ دن کے لیے جاتا ہے، کبھی دس دن سے زیادہ بھی ہوجاتے ہیں اور یہ مدت کبھی متعین ہوتی ہے اور کبھی غیر متعین، اس صورت میں قصر نماز کا کیا حکم ہے؟

5۔کراچی بندرگاہ اور "اورماڑہ" کی ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ جاتے ہوئے نماز کے قصر کرنے کا کیا حکم ہے؟

6۔بحری جہاز اورماڑہ اور گوادر میں بھی کھڑا رہتا ہے، کھڑے رہنے کی مدت کبھی متعین ہوتی ہے اور کبھی متعین نہیں ہوتی، اس صورت میں نماز کے قصر کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1۔واضح رہے قصر نماز اس وقت پڑھی جائےگی جب کوئی شخص تین دن، تین رات کی مسافت کے سفر کے ارادہ سے نکلے جس کا اندازہ 48  میل یاسواستترکلومیٹرسے لگایا گیا ہے، اور اس شخص کا ارادہ پندرہ دن سے کم قیام کا ہو بشرطیکہ جہاں قیام کر رہا ہے وہ جگہ مسافر کا وطن اصلی نہ ہو، تو یہ شخص قصر پڑھے گا ۔اور یہ قصر لنگر کی حدود سے نکلنے کے بعد سے شروع ہو گا ،اور اس کے بعد جبتک واپس سا حل پر نہیں آئے گا ،تب تک قصر ہی کرے گا ،کیوں کہ سمندر میں اقامت کی نیت معتبر نہیں ۔

2۔خشکی میں تین دن کا سفر شرعی اعتبار سے اڑتالیس میل کا سفر سمجھاجاتاہے،اور اڑتالیس میل کے سفر میں آدمی مسافر شمار ہوتاہے اور نمازقصر اداکرتاہے،بحری سفر میں  بھی یہی مسافت معتبر ہے ،اور اڑتالیس میل کے سفر میں آدمی مسافر شمار ہو گا ،اور قصر کرے گا۔

3۔کراچی بندر گاہ سے کے لنگر گاہ سے جہاز نکلنے کے بعد  سفرشروع ہو جائے گا اور نماز قصر کر کے پڑھی جائے گی۔

4۔ سمندر میں اقامت کی نیت معتبر نہیں ہے؛ اس لیے  لنگرگاہ سے نکلتے ہی نماز قصر کی ابتداء ہو جائے گی، خواہ جہاز جتنی مدت کے لیے بھی نکلا ہو، البتہ جب کسی شہر کے لنگر گاہ  میں لنگر انداز ہو،  اور اس جگہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھی جائے گی۔

5۔ ساحلی پٹی کا جو حصہ کسی شہر کا حصہ تصور کیا جاتا ہو اور وہاں رک کر پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو پوری نماز پڑھی جائے گی، باقی ساحلی پٹی پر سفر کے ارادے سے چلتے ہوئے اگر اڑتالیس میل یا اس سے زیادہ چلنے کا ارادہ ہو تو قصر ہی کی جائےگی ۔

6۔گوادر یا اور ماڑہ  کے لنگر گاہ میں قیام کے وقت جب مدت متعین ہو اور پندرہ دن سے زائد ہو تو پوری نماز پڑھی جائے گی، لیکن جب مدت متعین نہ ہو تو پھر قصر ہی کی جائے گی۔

فتاوی ٰمحمودیہ میں ہے:

"مسافتِ قصر کی مقدار "

سوال :کس قدر مسافت ہے جس سے مسافر کو قصر کی اجازت ہو جاتی ہے ؟

الجواب حامداومصلیا:

"متوسط رفتار سے تین روز کی مسافت پر شرعا قصر کیا جاتا ہے، اور تمام دن چلنا ضروری نہیں بلکہ صبح سے سردی میں زوال تک چلنا معتبر ہے، اور ہر جگہ کے سفر میں اسی کے موافق رفتار معتبر ہوگی، مثلا خشکی میں پیدل یا معمولی اونٹ وغیرہ کی رفتار اور دریا میں کشتی کی متوسط رفتار معتبر ہوگی اس مسافت کا اندازہ تقریبا 48 میل ہے ۔"

(کتاب الصلوۃ،باب سلوۃ المسافر،ج:ہفتم،ص:482 ،ط:ادارۃ الفاروق )

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله من جاوز بيوت مصره مريدا سيرا وسطا ثلاثة أيام في بر أو بحر أو جبل قصر الفرض الرباعي ...حتى يدخل مصره أو ينوي الإقامة نصف شهر في بلد أو قرية)"

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:138-141، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه...(صلى الفرض الرباعي ركعتين)."

(كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ج:2، ص:121-123، ط: سعيد)

فتاویٰ دارالعلوم میں ہے :

"سوال:اگر کوئی شخص ہمیشہ دریائی سفر پر رہے ،یا جہاز کی نوکری کرے یا مہینہ میں دس روز جہاز کا سفر کرے اور دس پندرہ روز اپنے مکان پر ،وہ نماز قصر پڑھے یا پوری؟

الجواب :جس زمانے میں  سفر پر رہے اور جہاز میں سفر کرے بشرط یہ کہ سفر تین منزل کا ہو،تو وہ قصر کرے اور جس وقت اپنے وطن پہنچے اور وطن میں رہے، ان دنوں میں نماز پوری پڑھے ۔"

(کتاب الصلوۃ ،ج:1،ص:323 ،ط:دارالاشاعت)

صحیح بخاری میں ہے:

"وكان ابن عمر وابن عباس رضي الله عنهم يقصران ويفطران في أربعة برد وهي ستة عشر فرسخا."

(أبواب تقصير الصلاة، باب في كم يقصر الصلاة، ج: 2، ص: 43، ط: دار طوق النجاة)

عمدۃ القاری میں ہے:

"ذكر المسافة التي تقصر فيها الصلاة: اختلف العلماء فيها، فقال أبو حنيفة وأصحابه والكوفيون: المسافة التي تقصر فيها الصلاة ثلاثة أيام ولياليهن بسير الإبل ومشي الأقدام. وقال أبو يوسف: يومان وأكثر الثالث، وهي رواية الحسن عن أبي حنيفة ورواية ابن سماعة عن محمد ولم يريدوا به السير ليلا ونهارا لأنهم جعلوا النهار للسير والليل للاستراحة، ولو سلك طريقا هي مسيرة ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليها في يوم من طريق أخرى قصر، ثم قدروا ذلك بالفراسخ، فقيل: أحد وعشرون فرسخا، وقيل: ثمانية عشر، وعليه الفتوي، وقيل: خمسة عشر فرسخا، وإلى ثلاثة أيام ذهب عثمان بن عفان وابن مسعود وسويد بن غفلة والشعبي والنخعي والثوري وابن حيي وأبو قلابة وشريك بن عبد الله وسعيد بن جبير ومحمد بن سيرين، وهو رواية عن عبد الله بن عمر. وعن مالك: لا يقصر في أقل من ثمانية وأربعين ميلا بالهاشمي، وذلك ستة عشر فرسخا، وهو قول أحمد، والفرسخ ثلاثة أميال، والميل ستة آلاف ذراع، والذراع أربع وعشرون إصبعا معترضة معتدلة، والأصبع ست شعيرات معترضات معتدلات، وذلك يومان، وهو أربعة برد، هذا هو المشهور عنه. كأنه احتج بما رواه الدارقطني من حديث عبد الوهاب بن مجاهد عن أبيه وعطاء بن أبي رباح (عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا أهل مكة لا تقصروا الصلاة في أدنى من أربعة برد من مكة إلى عسفان). وعبد الوهاب ضعيف، ومنهم من يكذبه."

(كتاب تقصير الصلاة، باب الصلاة بمنى، ج: 7، ص: 119، ط: دار إحيارء التراث العربي بيروت)

البحرالرائق میں ہے:

"وأما ‌السير ‌في ‌البحر فيعتبر ما يليق بحاله، وهو أن يكون مسافة ثلاثة فيه إذا كانت تلك الرياح معتدلة، وإن كانت تلك المسافة بحيث تقطع في البر في يوم كما في الجبل يعتبر كونها من طريق الجبل بالسير الوسط ثلاثة أيام، وإن كانت تقطع من طريق السهل بيوم، فالحاصل أن تعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه۔"

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ المسافر۔ج:2،ص:140 ،ط:دارالکتاب الإسلامي)

وفي النهاية :

"(فأما المعتبر في البحر فما يليق بحاله) ش: يعني يعتبر السير فيه ثلاثة أيام ولياليها، بعد أن كانت الريح مستوية لا ساكنة ولا عالية. م: (كما في الجبل) ش: فإنه يعتبر فيه ثلاثة أيام۔"

(كتاب الصلوة ،‌‌السفر الذي يتغير به الأحكام،ج:3،ص؛8،ط:دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں