بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں اور بھائی کے شادی کے موقع پر ہونے والے اخراجات کو ترکہ میں سے منہا کرنا


سوال

میرے والد صاحب  کاانتقال 2006 ء میں ہوا وصال کے وقت ایک بیوہ ، دو بیٹے اور تین بیٹیاں زندہ تھیں جوکہ آج تک حیات ہیں ، وصال کے وقت میرے والد صاحب نے ایک گھر دومنزلہ اور ایک پلاٹ دو  دکانوں کےساتھ چھوڑا ، کچھ زیورات میرے والد صاحب نے میری والدہ کو گفٹ کیے تھے ،مرحوم کے انتقال کے وقت ایک بیٹا اور تین بییٹاں شادی شدہ تھیں ، جبکہ ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کی شادی ہم دونوں بھائیوں  کی ذاتی آمدنی سے ہوئی باقی گھرکے تمام اخراجات بھی آج تک ہم دونوں بھائیوں کے ذمہ ہیں ۔ گھر کے ایک پورشن اور  دکانوں کے کرائے سے والدہ نے  کمیٹی ڈالی ایک کمیٹی  4لاکھ کی والدہ نے گھر میں لگائی (یعنی خالی پلاٹ  پہ گھر بنوایا ) زیورات بھی اسی گھر کے بنوانے میں خرچ کئے ۔ایک کمیٹی 4لاکھ کی بہنوں کو دیدی ،پھر تیسری کمیٹی ہم دونوں بھائیوں کے لئے رکھ دی ہے ۔ 

اب سوال یہ ہے کہ کیا ان دو بہنوں اور ایک بھائی کی شادی پر جو خرچہ  ہوا ہے کیا ہم اس کو میراث سے منہا کر سکتے ہیں جبکہ خرچہ کرتے وقت ہم نے واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں کیاتھا ؟

دوسرا سوال یہ ہےکہ میراث کی تقسیم میں آج کل کی ویلیو کا اعتبارہے یا اس وقت کی جب والد صاحب کا انتقال ہوا تھا ۔  

جواب

1.صورتِ مسئولہ میں آپ لوگوں  نے اپنی بہنوں اور بھائی کی شادی کے موقع پر  جو اخراجات کیے (یعنی جہیز دلایا اور شادی کا کھانا کھلایا وغیرہ) تو چوں کہ یہ اخراجات ادا کرتے وقت آپ لوگوں کی  نیت بہنوں اوربھائی سے ان اخراجات کے بقدر رقم واپس لینے یا ان کے حصے سے کاٹنے کی نہیں تھی اور نہ ہی بہنوں سے اس طرح کا کوئی معاہدہ ہوا تھا، بلکہ آپ لوگوں نے بہن،بھائی  سمجھ کر  یہ نیکی اور احسان والا معاملہ ان کے ساتھ کیا تھا، اس لیے اب آپ ان کی شادی کے اخراجات کے لیے کیا جانے والا خرچہ ان کے حصے سے نہیں کاٹ سکتے ۔ بھائی ،بہن کے ساتھ تعاون کرنا انکی مالی مدد کرنا انتہائی ثواب کاکام ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔(مظاہر حق،ج:3،ص:271،ط:دار الاشاعت)

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي".

(کتاب الآداب،باب افضل الصدقۃ،ج:1ص:604،ط:المکتب الاسلامی)

تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے : 

"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات، 2/ 391،ط: قدیمی)

2. میراث کی تقسیم میں موجودہ قیمت (ویلیو) کا اعتبار ہوگا ۔

فتاوی رحیمیہ میں  ایک سوال کے جواب میں ہے :

"جس وقت ترکہ تقسیم کیا جائے اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا ،یہ حقوق العباد کا معاملہ میں ہے ،اس میں بہت احتیاط ضروری ہے ۔"

(فتاوی رحیمیہ 10/283،ط:دارالاشاعت )

فقظ واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308100525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں