بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کو صدقات دینے کا حکم


سوال

میں شادی شدہ ہوں، میری تین بہنیں اپاہج، چلنے پھرنے سے معذور ہیں، کیا ان کو صدقہ دینا جائز ہے؟ اور کیا میں ان کو صدقہ فطر یا ہر ماہ اپنی آمدن میں سے ان کو خرچے کی صورت میں صدقہ دے سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ بہنوں کو نفلی صدقات دینا بہر صورت جائز ہے، تاہم صدقاتِ واجبہ (فدیہ، صدقہ فطر وغیرہ) دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستحقِ زکات ہوں، یعنی ان کے پاس ضرورت سے زائد اتنی رقم نہ ہو جو بقدر نصاب ہو، یعنی ضرورت سے زائد ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت کے بقدر رقم یا ضرورت سے زائد بقدر نصاب سامان یا مالِ تجارت نہ ہو، نیز سید، ہاشمی، عباسی، علوی یا جعفری نہ ہوں، نیز اسی طرح ان کا اور سائل کا کھانا پینا (کچن) الگ ہو۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل اپنی بہنوں کو نفلی صدقات دے سکتا ہے، لیکن ان کو صدقہ فطر دینے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستحقِ زکات بھی ہوں، اور اگر ان بہنوں کی ملکیت میں اپنا کوئی مال نہ ہو جس کی وجہ سے ان کا نان و نفقہ سائل پر لازم ہو تو، تو سائل کے لیے ان کو ماہانہ خرچے کی مد میں صدقہ فطر دینا جائز نہیں، بلکہ ماہانہ خرچی کے علاوہ مزید رقم بطورِ صدقہ فطر ادا کرنی ہوگی۔

محیط برہانی میں ہے:

"وفي «العيون» : ‌رجل ‌يعول أخته أو أخاه أو عمه، فأراد أن يعطيه الزكاة إن لم يكن فرض عليه القاضي نفقته جاز؛ لأن التمليك من مولاه بصفة القربة يتحقق من كل وجه، فيتحقق ركن الزكاة، وإن كان القاضي فرض عليه نفقته، إن لم يحتسب المؤدى إليه نفقته جاز أيضاً، وإن كان يحتسب لا يجوز؛ لأن هذا أداء الواجب بواجب آخر."

(كتاب الزكاة، الفصل الثامن في المسائل المتعلقة بمن توضع الزكاة فيه، ج: 2، ص: 288، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وشرطه) أي شرط افتراض أدائها (حولان الحول) وهو في ملكه (وثمنية المال كالدراهم والدنانير) لتعينهما للتجارة بأصل الخلقة فتلزم الزكاة كيفما أَمسكهما ولو للنفقة."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 267، ط: دار الفکر بیروت)

وفيه أيضاً:

"باب المصرف أي مصرف الزكاة والعشر... (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة (ومسكين من لا شيء له) على المذهب."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 339، ط: دار الفکر بیروت)

وفيه أيضاً:

"والأفضل إخوته وأخواته ثم أولادهم ثم أعمامه وعماته ثم أخواله وخالاته ثم ذوو أرحامه ثم جيرانه ثم أهل سكته ثم أهل بلده."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج: 2، ص: 354، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144402100655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں