بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہنوں کا حصہ نہ دینا


سوال

میرے والد صاحب کا 6 سال پہلے انتقال ہوا ان کے ورثاء میں دو بیٹے اور بیٹیاں اور بیوہ حیات تھے۔ان کے والدین کا ان سے پہلے ہی  انتقال ہو چکا تھا۔ہم نے میراث کی تقسیم کا فتوی لیا تھا ۔ابھی یہ معلوم کرنا ہے کہ :

ہمارے خاندان میں یہ رواج ہے کہ بہنوں کو حصہ نہیں دیا جاتا بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو جہیز میں جو سامان وغیرہ ملا تھا وہ ان کا حصہ ہے، اس کے علاوہ والد کے ترکے میں ان کا حصہ نہیں ہے ،کیا شرعاً ایسا کرنا جائز ہے کہ جہیز میں سامان دیا جائے اور اس کے علاوہ میراث میں سے کچھ نہ دیا جائے۔

نیزمیرا بھائی میرے والد صاحب کی کل جائیداد پر قابض ہے ،والدہ بھی ان کے ساتھ دے رہی ہیں، انہوں نے کسی کو بھی اس کا شرعی حصہ نہیں دیا ،دریافت یہ کرنا ہے کہ اس طرح قبضہ کرنا جائیداد پر شرعا جائز ہے اور اگر کوئی کرتا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟

بہنیں ڈر کے مارے کہتی ہیں کہ ہم نے اپنا حصہ بھائی کو معاف کر دیا لیکن دل سے اس پر راضی نہیں ہیں تو کیا اس طرح حصہ معاف ہو سکتا ہے یا نہیں؟ حالانکہ ان کی مالی حالت بھی اچھی نہیں ہے شادی شدہ ہیں اور ان کے بیٹے بھی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے، اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بیٹوں کا  خود  تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، بھائیوں  پر لازم ہے  کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ  اس دنیا میں دے دیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں ،حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔

 ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے  :

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

نیز  کسی وارث کا میراث کی تقسیم سے پہلے  اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے،  البتہ ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ خوشی سے  جس کو دینا چاہے دے سکتا ہے ، لیکن اگر بھائیوں کے یا خاندانی  یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے بہنوں سے زبردستی ان کی رضامندی کے بغیر  ان کا حصہ معاف کرالیا جائے تو  بھائیوں کے لیے وہ حلال نہیں ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»". 

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

           وفیہ ایضاً: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

(1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:    

" الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط".

(ج؛7/ص؛505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)

       الأشباہ والنظائر لابن نجیم  میں ہے:

   "لو قال الوارث: تركت حقّي لم يبطل حقُّه؛ إذ الملكُ لا يبطل بالتّرك".

(ص؛309/ما یقبل الاسقاط من الحقوق وما لا یقبلہ/ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100530

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں