بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کو عمرہ کرانے کی خواہش کا اظہار


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین  مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ مسماة  ہندہ نے اپنے ماموں سے کچھ رقم ادھار لی تھی،  ماموں نے رقم دیتے وقت کہا کہ یہ رقم  میں نے  تمہاری امی کو عمرہ کرانے کے لئے رکھی تھی،   لہذا یہ رقم اپنی امی کو دے دینا، ہندہ کو رقم  دینے کے بعد ماموں کا انتقال ہوگیا۔

اب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ ہندہ یہ رقم کس کو واپس کرے،  اپنی والدہ کو یا مرحوم کے وارثین  کو جو کہ اس کی بیوہ اور اولاد ہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ خاتون کے ماموں نے جو  رقم اپنی بھانجی کو بطور قرض دی  تھی، اور کہا تھا کہ یہ تمہاری والدہ کے عمرہ کے لیے رکھی ہے، تم یہ  رقم اپنی امی کو دے دینا، اور رقم کی ادائیگی سے قبل ہی ماموں کا انتقال ہوگیا، تو اس صورت میں مذکورہ رقم ترکہ میں شامل کرکے مرحوم کے شرعی ورثاء میں تقسیم کی جائے گی، البتہ اگر مرحوم کے شرعی وارثین مذکورہ رقم مرحوم کی ہمشیرہ کو دینے پر راضی ہوجائیں، تو اس صورت میں یہ رقم مسماة ہندہ کی والدہ کو دی جائے گی۔

کیوں کہ  مرحوم کا اپنی بھانجی کو قرضہ دیتے وقت یہ کہنا کہ :" یہ رقم میں نے تمہاری امی کو عمرہ کرانے کے لیے رکھی تھی، لہذا یہ رقم اپنی امی کو دے دینا" نہ ہی ہبہ ہے، اور نہ ہی وصیت ہے، اس لیے کہ ہبہ مکمل ہونے کے لیے قبضہ شرعا ضروری ہے، جوکہ مسئولہ صورت میں نہیں پایا گیا، اور نہ ہی یہ وصیت ہے، کیوں کہ وصیت کہا جاتا ہے کسی کام  کو اپنی موت کے بعد  سر انجام دینے  کے حکم کو، جوکہ مسئولہ صورت میں مفقود ہے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

"وركنها هو الإيجاب والقبول، وعن هذا قال: (وتصح) الهبة (بإيجاب وقبول) على ما في الكافي وغيره؛ لأنها عقد وقيام العقد بالإيجاب والقبول ... (وتتم) الهبة (بالقبض الكامل) ، ولو كان الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به لقوله - عليه السلام -: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» والمراد هنا نفي الملك لا الجواز؛ لأن جوازها بدون القبض ثابت."

 (كتاب الهبة، أركان الهبة، ٢ / ٣٥٣ ، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت، لبنان)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

"(الوصية) في الشرع (تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) يعني بطريق التبرع سواء كان عينا أو منفعة، وسببها أن يذكر بالخير في الدنيا ونيل الدرجات العالية في العقبى."

( كتاب الوصايا، ٢ / ٦٩١، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت، لبنان)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404101654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں