بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کا انتقال ہوگیا اور زیور دوسری بہن کے پاس تھا


سوال

عام طور پر ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے کہ بہنیں آپس میں ایک دوسرے کے زیور اور کپڑے وغیرہ استعمال کے لیے لیتی ہیں اور بعد میں واپس بھی کردیتی ہیں۔ میری اہلیہ کی دو بہنیں ہیں اور وہ بھی ایسا ہی کیا کرتی تھیں، لیکن اسی دوران اچانک میری اہلیہ کا انتقال ہو گیا، انتقال کے وقت اس کا تذکرہ نہ کیا گیالیکن ترکہ میں ایک سونے کا سیٹ کم تھا، جو غالب گمان کے مطابق دونوں بہنوں میں سے کسی ایک کے پاس ہے، اور اس کے علاوہ ایک موٹی چین بھی غائب ہے  لیکن اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کہاں ہے۔  میری بیٹی اس وقت گیارہ یا بارہ سال کی تھی اور اسے اس وقت اتنا شعور نہ تھا۔

ظاہر ہے کہ زیور دونوں بہنوں میں سے کسی ایک کے پاس تو ہے اور ایسا ممکن بھی نہیں کہ ان آٹھ سالوں میں ان کو یاد نہ آیا ہو یا انہوں نے اپنے گھر  چیک نہ کیے ہوں، ایسی صورت میں جان بوجھ کر کسی بغیر ماں کی بچی کا مال رکھ  لینا یا کھا جانا، اس بارے میں کیا شرعی حکم ہے، براۓ مہربانی آگاہ کریں۔

جواب

واضح رہے کہ بہن، بھائیوں کا آپس میں اس طرح ایک دوسرے کا سامان لے لینا اور ایک دوسرے کے کپڑے پہننا وغیرہ عاریت کے حکم میں ہوتا ہے، اور عاریت دینے والے کی وفات کی صورت میں اس کے ورثاء تک اس کی چیز پہنچانا ضروری ہے، اگر عاریت لینے والے اس عاریت کو واپس نہ کریں یا واپس کرنے سے انکار کردیں تو وہ غاصب شمار ہوں گے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل بدگمانی کرنے کے بجاۓبہنوں سے گم شدہ زیورات کا ذکر کرے ممکن ہے کہ سائل کی مرحومہ اہلیہ کی بہنیں زیورات واپس کردیں، اگر وہ اپنے پاس زیورات کے ہونے کا انکار کردیں تو سائل کے پاس اگر اس بات کے گواہ ہوں تو پیش کرے، گواہ نہ ہونے کی صورت میں قسم کے ساتھ بہنوں کی بات کا اعتبار ہوگا، اور وہ زیورات کی ضامن نہ ہوں گی اور  بدگمانی کرنا بھی جائز نہیں ہوگا اور اگر وہ زیورات لینے کا اقرار تو کریں مگر ان کو خرچ کردیا ہو یا واپس دینے سے انکار کردیں تو اس صورت میں وہ غاصب شمار ہوں گی اور زیورات کا ضمان ان پر لازم ہو گا، اور نہ دینے پر گناہ گار ہوں گی۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"والعارية أمانة إن هلكت من غير تعد لم يضمنها."

(كتاب العارية، الباب الأول في تفسير العارية وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ج: 4، ص: 363، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"وإذا طلب المعير العارية فمنعها المستعير عنه فهو ضامن."

(كتاب العارية، باب الثامن في الاختلاف الواقع في هذا الباب والشهادة فيه، ج: 4، ص: 371، ط: دار الفكر بيروت)

وفيه أيضا:

"مات المعير أو المستعير ترد العارية، كذا في محيط السرخسي."

(كتاب العارية، باب التاسع في المتفرقات، ج: 4، ص: 373، ط: دار الفكر بيروت)

رد المحتار میں ہے:

"(ولو منعه الوديعة ظلما بعد طلبه) لرد وديعته... (قادرا على تسليمها ضمن، وإلا) بأن كان عاجزا أو خاف على نفسه أو ماله... (لا) يضمن."

(کتاب الإیداع، ج: 5، ص: 665،ط: دار الفکر بیروت) 

وفيه أيضا:

"وحكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة والغرم هالكة."

(کتاب الغصب، ج:6، ص: 179، ط: دار الفکر بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308101534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں