بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کوبچہ گود دینے کے احکامات


سوال

 میرے گھر اولاد کی ولادت ہے اور میں اپنی ہونے والی اولاد اپنی بہن کو دینا چاہتا ہوں۔ میری بہن بے اولادہے، اس سلسلے میں شریعت کے احکامات واضح کردیں۔ 

جواب

اللہ تعالیٰ نےدنیاکی  ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی، بلکہ اس میں فرق رکھا ہے، جس کو جو چاہا نعمت عطا کر دی، ہر آدمی کو اولاد کی نعمت کا میسر آنا ضروری نہیں، چناں چہ اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو  یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو  لے کر پالنا  چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

بچے کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر ماں کو  عذر نہ ہو تو  اسے بچے کو دودھ پلانا چاہیے کہ یہ بچے کا حق ہے، اور ماں پر دیانتًا واجب ہے، اور    جب کہ  عورت بچے یا بچی کو دودھ پلارہی ہو تو شوہر کو اس عرصے میں بیوی کی غذا، صحت اور لباس پوشاک وغیرہ کا بطورِ خاص انتظام کرنا چاہیے۔ 

ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، جن کی پشت سے وہ پیدا ہوئے ہیں،  اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  پرورش ، تعلیم وتربیت  اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولے اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولے  اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتے، اور   لے پالک اور منہ بولے اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہےاور تمام سرکاری اور غیر سرکاری کاغذات میں بچہ کی ولدیت کے خانہ میں اصل والد کا نام لکھا جائے البتہ پرورش کرنے والے کا نام بطور سرپرست لکھا جاسکتا ہے ۔

دوسری بات یہ کہ اولا ً شیرخوارگی کی مدت میں اگر ماں کو  عذر نہ ہو تو  اسے بچے کو دودھ پلانا چاہیے کہ یہ بچے کا حق ہے،البتہ اس میں  اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اگر  گود لینے والا یا والی اس بچے کے لیے نا محرم ہو تو بلوغت کے بعد پردے کا اہتمام کیا جائے، محض گود لینے سے محرمیت قائم نہیں ہوتی۔لہذااگر سائل کی بہن اس بچے کو رضاعت کی مدت میں دودھ پلادے تو  وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی، اور اس کا شوہر رضاعی باپ بن جائے گا  یا اسی طرح اگر بچی ہوتو  شوہر  کی  بہن یاکوئی اور محرم عورت وغیرہ اس بچی کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادےتو وہ بچی شوہرکےلیے محرم بن جائے گی، اس صورت میں  شوہر سے بچی کے پردے کا حکم نہیں ہوگا۔ 

نیز  یہ بھی کہ لے پالک بچہ یابچی اپنے حقیقی والدین کے تو وارث بنیں گے، لیکن  گود لینے والے کے ترکہ میں ان کا  اولاد ہونے کی حیثیت سے حق وحصہ نہیں ہوگا۔ ہاں اپنی زندگی میں بطورِ گفٹ انہیں کوئی چیز دی جاسکتی ہے اور اسی طرح  اگر وہ بچے شرعی وارث نہ بن رہے  ہوں تو ان کے حق میں ایک تہائی ترکہ تک کی وصیت کی جاسکتی ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَما جَعَلَ أَدْعِياءَكُمْ أَبْناءَكُمْ ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آباءَهُمْ فَإِخْوانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوالِيكُمْ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ فِيما أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً (5)"

ترجمہ: "اورنہ تمہارے لے پالکوں کوتمہارے بیٹے بنایا ، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تعالی توسچی بات فرماتا ہے اور وہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے ۔ مومنو! لے پالکوں کو ان کے( اصلی ) باپوں کےنام سے پکارا کرو کہ اللہ کےنزدیک یہ بات درست ہے۔ اگر تم کو ان سےباپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں وہ تمہارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سےغلطی سےہو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو ( اس پر مؤاخذہ ہے )اوراللہ بڑا بخشنے ولا نہایت  مہربان ہے ۔"

تفسیر مظہری میں ہے:

"فلا يثبت بالتبني شىء من احكام النبوة من الإرث وحرمة النكاح وغير ذلك."

(الاحزاب: ۵ جلد ۷ ص: ۲۸۴ ط: مکتبۃالرشدیة)

سنن ابی  داؤد میں ہے:

"عن أنس بن مالك، قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "من ادعى إلى غير أبيه، أو انتمى إلى غير مواليه، فعليه لعنة الله المتتابعة إلى يوم القيامة."

(ابواب النوم جلد ۷ ص: ۴۳۷ ط: دارالرسالةالعالمیة)

ترجمه:"حضرت انس رضي الله عنه سے روايت هے كه ميں نے رسول الله صلي الله عليه وسلم كو فرماتے هوئے سنا جو شخص اپنےباپ کے علاوہ کسی اور کا بیٹا ہونے کا دعو ی کرے یا (کوئی غلام ) اپنے آقاؤں کی بجائےدوسروں کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے تو اس پر اللہ تعالی کی مسلسل لعنت ہو۔"

فتاوی شامی میں ہے:

"يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه."

(کتاب النکاح ، فصل فی المحرمات جلد ۳ ص: ۳۱ ط: دارالفکر)

تفسير الطبري  میں ہے:

’’القول في تأويل قوله تعالى: وَالْوالِداتُ يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كامِلَيْنِ لِمَنْ أَرادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَاّ وُسْعَها لَا تُضَارَّ والِدَةٌ بِوَلَدِها وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ فَإِنْ أَرادا فِصالاً عَنْ تَراضٍ مِنْهُما وَتَشاوُرٍ فَلا جُناحَ عَلَيْهِما وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلادَكُمْ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ إِذا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِما تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [البقرة: 233] يعني تعالى ذكره بذلك: والنساء اللواتي بن من أزواجهن ولهن أولاد قد ولدنهم من أزواجهن قبل بينونتهن منهم بطلاق أو ولدنهم منهم بعد فراقهم إياهن من وطء كان منهم لهن قبل البينونة يرضعن أولادهن، يعني بذلك أنهن أحق برضاعهم من غيرهن، وليس ذلك بإيجاب من الله تعالى ذكره عليهن رضاعهم، إذا كان المولود له والداً حياً موسراً؛ لأن الله تعالى ذكره قال في سورة النساء القصرى: {وإن تعاسرتم فسترضع له أخرى} [الطلاق: 6] وأخبر تعالى، أن الوالدة، والمولود، له إن تعاسرا في الأجرة التي ترضع بها المرأة ولدها، أن أخرى سواها ترضعه، فلم يوجب عليها فرضًا رضاع ولدها، فكان معلومًا بذلك أن قوله: {والوالدات يرضعن أولادهن حولين} [البقرة: 233] دلالة على مبلغ غاية الرضاع التي متى اختلف الولدان في رضاع المولود بعدها، جعل حدًّا يفصل به بينهما، لا دلالة على أن فرضًا على الوالدات رضاع أولادهن، وأما قوله {حولين} [البقرة: 233] فإنه يعني به سنتين.‘‘

(سورۃ البقرۃ، آیت نمبر ۲۳۳، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۱، دار التربیۃ و التراث)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101388

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں