بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن بھائیوں کو عشر دینا


سوال

تین بھائی  ہیں، باپ زندہ ہے، آبائی جائیداد نہیں ہے۔ ایک بھائی دوبئی گیا تھا، وہاں سے رقم کماکر لایا، اس سے زمین خریدی۔اس زمین کی پیداوار گندم سے اپنی بیوہ بہن کو عشر دے سکتے ہیں کہ نہیں؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ بھائی اپنی  بیوہ  بہن  کو  (بشرط یہ کہ وہ مستحق ہو) اپنی زمین کے عشر میں سے دے سکتا ہے، عشر کا مستحق بھی وہی ہے جو زکاۃ کا ہے۔ یعنی وہ شخص جس کے پاس ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے اور وہ ہاشمی (سید، عباسی) نہ ہو تو وہ زکاۃ اور عشر کا مستحق ہے۔

بہن اگر اس بھائی کے زیرِ کفالت ہے تو واجب نفقے کے علاوہ عشر کی مد میں ادا کرے، اسی طرح اگر رہائش اور خرچ مشترک ہو تو عشر یا زکاۃ ادا کرتے ہوئے بتادے کہ اسے مشترکہ خرچے میں شامل نہ کرے۔

بدائع الصنائع میں ہے:
"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم لانقطاع منافع الأملاك بینهم". (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع 50/2 ط:سعید)

فتاوی شامی  میں ہے:

"قید بالولاد لجوازه بقیة الأقارب کالإخوة و الأعمام و الأخوال الفقراء بل هم أولی؛ لأنه صلة وصدقة". (رد المحتار ج:2 ص:346 کتاب الزکاة، باب المصارف، ط:ایچ ایم سعید)

’’وفي العیون: رجل یعول أخته أو أخاه أوعمه أوعمته فأراد أن یعطیه الزکاة إن لم یکن فرض علیه القاضی نفقته جاز؛ لأن التملیک من هولاء بصفة القربة یتحقق من کل وجه فیتحقق رکن الزکاة، وإن کان القاضی فرض علیه نفقته إن لم یحتسب المؤدي إلیه من نفقته جاز أیضاً، وإن کان لایحتسب لایجوز لأن هذا أداء الواجب بواجب آخر ‘‘ … (المحیط البرهاني :۳ / ۲۱۸

"والأفضل أن یبدأ بأخوته وأخواته ثم أولادهم ثم أعمامه وعماته ثم أخواله وخالاته ثم ذووا أرحامه‘‘. (مصارف الزکاة، الشامیة،۳/۳۰۴) فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144109202055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں