بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن پر خرچ کرنے کے بعد مانگنے کا حکم


سوال

ہماری بہن کی طلاق کا معاملہ تھا،اس  کیس  کو حل کرنے کے لیے  کورٹ میں ہم بھائیوں کے  ڈھائی لاکھ روپے خرچ ہوئے، پھر جب ہم کیس جیت گئے، شوہر پر  طلاق دینے کی وجہ  سے مہر کی ادائیگی کی مد میں ساڑھے چار لاکھ ـ(450000) روپے کا حکم جاری ہوا، اب سوال یہ ہے کہ یہ  پیسے کس کا حق ہے اور پوری رقم کس کو ملے گی؟

2۔ ہم نے جو پیسے خرچ کیے تھے تو  کیا  بہن پر ڈھائی لاکھ روپے ادا کرنا لازم ہے جبکہ خرچ کرتے وقت کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا ، بس بھائی ہونے کی وجہ سے خرچ کیا؟ 

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کی بہن کو عدالت میں حق مہر کے عوض میں  جو رقم 450000 روپے ملے، یہ رقم سائل کی بہن کا حق ہے ، اور پوری رقم سائل کی بہن کو ملے گی۔

2۔سائل اور اس کے بھائیوں نے اپنی بہن پر عدالت میں جب بغیر کسی معاہدہ کے ڈھائی لاکھ روپے خرچ کیے ، تو یہ رقم سائل اور اس کے بھائیوں کی طرف سے اپنی بہن پر احسان اور تبرع ہوگئی اور اب  سائل کی بہن پر مذکورہ رقم کی ادائیگی لازم نہیں ہے، اور اسی طرح بھائیوں کے لیے اپنی بہن سےخرچ کردہ رقم کا مطالبہ  کرنے کا حق نہیں ہے۔

السنن الكبرى میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه۔"

(باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدار:،6 /166،رقم: 11545،ط: دار الكتب العلمية)

تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے : 

"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(کتاب المداینات،ج:2، ص:391، ط: قدیمی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں