بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کو نفلی صدقہ دینا


سوال

ميں نے الله سے دعا کرکے ایک وعدہ کیا تھا کہ میں اپنی کمائی کے 10فیصد اللہ کے راستے میں خرچ کروں گا،اب سوال یہ ہے کہ میں ان  پیسوں سے اپنی بہن کی مالی معاونت کرسکتا ہوں؟اگر وہ مالی طور پر کمزور ہے ،اور اسے عمرہ پر بھیج سکتاہوں ؟اس پر ظاہر کئے بغیر کہ یہ میرے طرف سے ہے،یا پھر ان 10ٖفیصد پر صرف ایسے لوگوں کا حق ہیں جن کو میں نہیں جانتا؟برائی مہربانی میرے اس سوال کا جواب عنایت فرمائیں ،اور ایک بات یہ ہے کہ میں عام طور پر اس 10 فیصد میں سے اور لوگوں کی بھی خدمت کرتا رہتاہوں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر آپ نے    یہ نیت کی ہے کہ  " میں اپنی کل آمدن کا دس فیصد اللہ کی راہ میں لگاؤں گا"   تو یہ  اللہ کے راستے میں خرچ کرنا وعدہ ہے، اس کی حیثیت ”نفلی صدقہ“   کی ہے، اس  رقم کو  تمام خیر کے مصارف میں خرچ کیا جاسکتا ہے، اور چوں کہ بہن کو نفلی صدقات دینا  جائز ہے اس لیے اس رقم سے بہن کی معاونت کی جاسکتی ہے اسی طرح بہن کےعمرہ کے اخراجات پر بھی رقم کو  لگانا جائز ہے اگر سائل اپنی بہن پر یہ ظاہر نہ کرے کہ یہ میری طرف سے ہے تو ایسابھی کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے جھوٹ کا سہارانہ لے۔

بھائی کا بہن کے ساتھ تعاون کرنا انکی مالی مدد کرنا انتہائی ثواب کاکام ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:کسی مسکین کو صدقہ دینا ایک صدقہ ہے (یعنی اس کو دینے میں صرف صدقہ ہی کا ثواب ملتا ہے)مگر اپنے اقرباء میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے،ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی(رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔(مظاہر حق،ج:3،ص:271،ط:دار الاشاعت)

مشکا ۃ المصابیح میں ہے:

"وعن سلمان بن عامر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصدقة على المسكين صدقة وهي على ذي الرحم ثنتان: صدقة وصلة ". رواه أحمد والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي".

(کتاب الآداب،باب افضل الصدقۃ،ج:1ص:604،ط:المکتب الاسلامی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والأفضل في الزكاة والفطر والنذر الصرف أولا إلى الإخوة والأخوات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأعمام والعمات ثم إلى أولادهم ثم إلى الأخوال والخالات."

(کتاب الزکوۃ،الباب السابع فی المصارف،ج:1،ص:290، ط:دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيد بالولاد لجوازه لبقية الأقارب كالإخوة والأعمام والأخوال الفقراء بل هم أولى؛ لأنه صلة وصدقة".

(کتاب الزکوۃ ،باب مصرف الزکوۃ،ج:2،ص:346، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں