بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بہن کا اپنے حصے سے دستبرار ہونا تقسیم سے پہلے


سوال

اگرکوئ بہن اپنے بھائی کو کہہ دے کہ میں نے وراثت میں اپناحصہ  معاف کیاہےاور جب کہ وراثت تقسیم نہ ہوئی ہواورنہ اس کا حصہ الگ کرکے دیدیاہو،توکیاایسی صورت میں اس کاحصہ اس کےبھائی کیلئے حلال ہوجائےگا؟جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ میراث اور ترکہ میں جائیداد کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ کسی  کو دینا چاہے  تو یہ شرعاً جائز اور  معتبر ہے۔ اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)  صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں بہن کا میراث کی تقسیم سے قبل بلاعوض اپنا حصہ معاف کرنا شرعاً درست نہیں ہے،اپنا حصہ وصول کر کے پھر اپنے پاس  رکھے یا تقسیم کردے اس کا اختیار ہوگا۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"لو قال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك۔"

(الفن الثالث  الجمع والفرق،ما یقبل الإسقاط من الحقوق:272 ،ط:دارالکتب العلمیة)

اس کے تحت غمز عیون البصائر میں لکھا ہے:

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"قوله: لو قال الوارث: تركت حقي إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.

(2) قوله: كذا في جامع الفصولين. يعني في الثامن والثلاثين وعبارته: قال أحد الورثة برئت من تركة أبي؛ يبرأ الغرماء عن الدين بقدر حقه لأن هذا إبراء عن الغرماء بقدر حقه فيصح ولو كانت التركة عينا لم يصح. ولو قبض أحدهم شيئا من بقية الورثة وبرئ من التركة وفيها ديون على الناس لو أراد البراءة من حصة الدين صح لا لو أراد تمليك حصته من الورثة لتمليك الدين ممن ليس عليه، ثم ذكر ما ذكره المصنف هنا من قوله: لو قال وارث تركت حقي إلى آخر كلامه وفيه التصريح بأن إبراء الوارث من إرثه في الأعيان لا يصح وقد صرحوا بأن البراءة من الأعيان لا تصح ومن دعوى الأعيان تصح وهو يرد قول خواهر زاده إن أريد بالحق في كلامه ما يعم العين والدين فتأمل۔"

(الاحکام الاربعۃ ،‌‌ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله ،ج:3،ص:354،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں  ہے:

"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط۔"

(مطلب : واقعة الفتوی ج:7،ص:505،ط:دارالفکر)

وفیہ أیضا:

"ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه۔"

(كتاب الدعوىباب دعوی النسب:ج:8،ص:89،ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں