بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر ٹوپی کے پگڑی باندھنا کیسا ہے؟


سوال

بغیر ٹوپی کے پگڑی باندھنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ عمامہ پہننے میں سنت طریقہ یہی ہے کہ ٹوپی کے اوپر باندھا جائےاور حضور ﷺ نے ایک حدیث میں بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھنے کو مشرکین کا طریقہ بتایا ہے، البتہ  بعض روایت میں خود حضور ﷺ سے بغیر ٹوپی کے عمامہ باندھنا بھی  ثابت ہے ،لہذا بغیر  ٹوپی کے عمامہ پہننا جائز ہے،لیکن  مستقل عادت نہ بنائی جائے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن ركانة - رضي الله عنه - عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: فرق ما بيننا وبين المشركين العمائم على القلانس . رواه الترمذي.

و عن الجزري قال بعض العلماء السنة: أن يلبس القلنسوة والعمامة، فأما لبس القلنسوة فهو زي المشركين لما في حديث أبي داود والترمذي عن ركانة. الحديث اهـ. وفيه أنه ينافيه ما سبق من الشراح، لكن قال ميرك: وروي عن ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلمكان يلبس القلانس تحت العمائم ويلبس بغير القلانس اهـ.

ولم يرو أنه - صلى الله عليه وسلم - لبس القلنسوة بغير العمامة، فيتعين أن يكون هذا زي المشركين، .... نعم الجمع بين الأحاديث أنها مع القلنسوة أفضل إما ليحصل بها البهاء الزائد، أو لأن القلنسوة تقيها من العرق، ولهذا تسمى عرقية، فلبسها وحدها مخالف للسنة، كيف وهي زي الكفرة، وكذا المبتدعة في بعض البلدان، لكن صار شعارا لبعض مشايخ اليمن، والله أعلم بمقاصدهم ونياتهم".

(کتاب اللباس،ج7،ص2777،ط:دارالفکر)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال: عمامہ یا رومال کے نیچے ٹوپی رکھنا سنت مؤکدہ ہےیا غیر مؤکدہ اور بغیر ٹوپی کے صرف عمامہ  یا رومال باندھ کر نماز ا ادا کرنا مکروہ ہے یا نہیں ؟بینوا تؤجروا۔

جواب:اگر چہ بیانِ جواز کے لیے حضور اکرم ﷺ نے بغیر ٹوپی کے بھی عمامہ استعمال فرمایا ،لیکن عام معمول عمامہ کے نیچے ٹوپی پہننے کا تھا،سلف صالحین اور بزرگانِ دین کا عمل بھی اسی پر رہا ،اس لیے بغیر ٹوپی عمامہ باندھنا خلافِ اولیٰ ہے ،مکروہ نہیں ،نماز پڑھنا بلا کراہت جائز ہے،والله سبحانه وتعالى اعلم."

(ج8،ص67،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں