بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر گواہ کے نکاح پھر طلاق کا حکم


سوال

میں نے ایک لڑکی کے ساتھ  میسج پر  مہرطے کیااور  اگلے دن  وائس میسج پر بغیر گواہ نکاح  کیا، میری نیت دھوکا دینے  کی تھی، میں نے فیک (جعلی) نکاح نامہ بنایا اور اس پہ خود دستخط کیااور خود مہر لکھا۔اس وقت میرا  ایک دوست میرے ساتھ موجود تھااس کو پتہ تھا کہ یہ دھوکہ ہے۔اس کے بعد میں دوسرے دوست کے گھر گیا اس کو بھی  جعلی نکاح نامے کے بارے میں بتایا اور یہ  کہ سب دھوکاہے۔پھر میں نےاس دوست کو مجبور کیا  کہ وائس میسج پر لڑکی کو  بولو   کہ ہمارا نکاح ہوگیا (دوست نے میرا نام نہیں لیا تھا ۔)اور میرے کہنے پر میرے دوست نے اس لڑکی کو وائس میسیج پر  3 دفعہ بولا کہ ہم نے اس لڑکے کو آپ کے ساتھ نکاح میں باندھا ۔اور  یہ بھی کہا کہ آپ وہاں سے وائس میسج پہ 3 دفعہ قبول ہے بولو ،پھر لڑکی نے وائس میسج پر قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے بولا (لڑکی نے میرا نام نہیں لیا تھا)، اس کے 3 دن بعد میرا وہ دوست میرے ساتھ تھا اس سے چھپ کر میں نے لڑکی سے نکاح نامے پر جلدی جلدی خود دستخط لیا اب،اور  زبان سےکچھ  نہیں بولا  ۔ پھر کچھ دنوں بعد میں نے اس کو 3 طلاق شرط کی صورت میں دی: " اگر تم نے اس سے بات کی تو تم مجھ پر 3 دفعہ طلاق ہوگی "۔ کیا ہمارا نکاح اور طلاق ہوگئی  یا نہیں؟ کیا ابھی میں اس لڑکی سے نکاح کرسکتا ہوں؟ کیا نکاح کے بعد طلاق کی شرط کی کوئی حیثیت ہو گی؟ اگر نکاح کے بعد اس نے یہ کام کیا اس سے  نکاح تو ختم نہیں ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ     مسلمان کو دھوکا  دینا   حرام ہے  اور سخت گناہ ہے اور ایسے شخص  کے متعلق آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : "من غشنا فليس منا "،  ترجمہ :" جو ہمیں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں  "، نیز نکاح کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا :"أعلنوا النكاح"،ترجمہ:"نکاح کا اعلان  کرو   "،لہذا دھوکا  دیتے ہوئے،چھپ چھپا کر  نکاح کرنا   اللہ تعالی کی ناراضی  کا سبب ہے،   نکاح جو کہ سنت ہے اسے سنت طریقے سے کرنا چاہیے،نیز نکاح کے بغیر اجنبی لڑکی کے ساتھ تعلقات رکھنا بھی حرام ہے  ۔

نیز واضح رہے کہ شرعی اعتبار  سے نکاح منعقد ہونے کے لیے  مجلس نکاح میں شرعی گواہان (دو عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اوردو عورتوں )  کی موجودگی میں   لڑکا اور  لڑکی یا  ان کے وکیل کا ایجاب و قبول کرنا ضروری ہوتا ہے ، لہذا صورتِ مسئولہ  میں  ایک دو ست کی موجودگی میں    فون پر ایجاب و قبول کرنے میں مذکورہ دونوں شرائط نہ پائی جانے  کی وجہ سے نکاح نہیں ہوا تھا ،اور یہی حکم سائل کا نکاح  نامے پر چھپ کر     دستخط کرنے کا ہے ،چنانچہ جب نکاح ہی منعقد نہیں ہوا تو  مذکورہ معلق  طلاق بھی لغوہے ۔

اب آئندہ سائل اگر مذکورہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرسکتا ہے،اور  گزشتہ طلاق کی شرط پائے جانے سے نکاح میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔تاہم ملحوظ رہے کہ چھپ کر نکاح کرنے کے بجائے والدین کی رضامندی سے علی الاعلان نکاح کیا جائے۔

صحیح مسلم میں ہے :

"حدثنا ‌قتيبة بن سعيد ، حدثنا ‌يعقوب، وهو ابن عبد الرحمن القاري ، (ح) وحدثنا ‌أبو الأحوص محمد بن حيان ، حدثنا ‌ابن أبي حازم كلاهما، عن ‌سهيل بن أبي صالح ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:  ‌من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن ‌غشنا فليس منا ."

(‌‌كتاب الإيمان،‌‌باب قول النبي صلى الله عليه تعالى وسلم: من غشنا فليس منا،ج 1، ص69 ،رقم 101 ،ط :دار الطباعة العامرة)

سنن ترمزی میں ہے:

"حدثنا ‌أحمد بن منيع، قال: حدثنا ‌يزيد بن هارون، قال: أخبرنا ‌عيسى بن ميمون الأنصاري ، عن ‌القاسم بن محمد ، عن ‌عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌أعلنوا هذا ‌النكاح واجعلوه في المساجد»، واضربوا عليه بالدفوف.هذا حديث غريب حسن في هذا الباب، وعيسى بن ميمون الأنصاري يضعف في الحديث، وعيسى بن ميمون الذي يروي عن ابن أبي نجيح التفسير هو ثقة."

( ‌‌أبواب النكاح من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب ما جاء في إعلان النكاح، ج2، ص384، رقم 1089، ط: دار الغرب الإسلامي)

صحیح ابن حبان میں ہے :

"أخبرنا عبد الله بن محمد الأزدي، حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس يعني عن أبيه، عن ابن عباس، ما رأيت شيئا أشبه باللمم مما قال أبو هريرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كتب الله على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة: ‌فزنى ‌العين ‌النظر، وزنى اللسان النطق، والنفس تتمنى ذلك وتشتهي، ويصدق ذلك الفرج أو يكذبه."

(‌‌القسم الثالث من أقسام السنن ،‌‌النوع الثالث والعشرون،‌‌ذكر وصف زنى ‌العين واللسان على ابن آدم،ج4، ص470، رقم 3787 ،ط: دار ابن حزم)

ہدایہ میں ہے :

" ولا ينعقد نكاح المسلمين إلا بحضور ‌شاهدين حرين عاقلين بالغين مسلمين رجلين أو رجل وامرأتين عدولا كانوا أو غير عدول أو محدودين في القذف."

(كتاب النكاح ،ج1 ،ص185 ، ط:دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے :

"شرط الإنعقاد فنوعان.....(وأما) الذي يرجع إلى مكان العقد فهو إتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح."

(كتاب النكاح، فصل شرائط الركن أنواع منها شرط الإنعقاد، ج2، ص232، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"(فصل) وأما الذي يرجع إلى المرأة فمنها الملك أو علقة من علائقه؛ فلا يصح الطلاق إلا في الملك أو في علقة من علائق الملك وهي عدة الطلاق أو مضافا إلى الملك."

(فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة ، ج3، ص106، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں