بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیویوں کے درمیان مساوات نہ کرنے والا شوہر ظالم اور گناہ گار ہے


سوال

میں نے اپنی پسند سے شادی کی،میرے شوہر کی یہ دوسری شادی ہے،ان کی پہلی بیوی بھی موجود ہے،مسئلہ یہ ہے کہ میرے شوہر میرے حقوق ادا نہیں کرتے ،نکا ح کے بعد کئی سال تک میں اکیلی رہتی رہی ،پھر میرے احتجاج پر مجھے اپنے ساتھ جس شہر میں ہوتے وہاں الگ سے ایک گھر لے کر دے دیتے،لیکن اس میں بھی  میرے ساتھ رہنے کے بجاۓ پہلی بیوی ہی کے ساتھ رہتے،اب بھی صرف پہلی بیوی ہی کو وقت دیتے ہیں،آرمی میں  ہیں ،تو ہر چھٹی پر پہلی بیوی کو ساتھ لے جاتے ہیں،اسی طرح نوکری کے دوران پوسٹنگ کے موقع پر   بھی ہر مرتبہ پہلی بیوی ساتھ جاتی ہے،اور پوسٹنگ کے بعد جو بھی گھر ملتا ہے اس میں ان کی پہلی بیوی ہی ان کے ساتھ رہتی ہے۔

میرا مطالبہ ہے کہ میرے شوہر میرے مکمل حقوق ادا کریں،اور جس طرح ایک لمبا وقت پہلی بیوی کو دیا ہے ،اب  اولاًاتنا ہی عرصہ صرف مجھے دیں،اس کے بعد انصاف کے ساتھ باری والی صورت اختیار کریں، اس صورت میں شریعت کے احکامات سے آگاہ فرمائیں ،دو بیویوں والے شوہر کے کیا فرائض اور ذمہ داریاں ہیں وہ بھی ذکر کریں۔اس  صورتِ حال سے مجبور ہوکر میں نے شوہر پر ایک مرتبہ ہاتھ بھی اٹھایا تھا،جس پر میں بہت شرمندہ ہوں اور اسی رویے کی وجہ سے میں  شوہر اوراس کی پہلی بیوی کو برا بھلا بھی کہہ دیتی ہوں۔

جواب

اگر کسی شخص کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو اس کے ذمے فرض ہے کہ وہ سب بیویوں کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرے،کسی کے ساتھ  ناانصافی نہ ہو،اورایک سے زائد نکاح کی اجازت بھی صرف اس صورت میں دی گئی ہے کہ جب مرددونوں بیویوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات کا برتاؤ کرسکے،قرآن مجید کی جس آیت میں  چار تک نکاح کی اجازت دی گئی ہے ،اس میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہےکہ  اگر تم ایک سے زیادہ بیویوں سے نکاح کرنے کی صورت میں عدل و مساوات پر قائم نہ رہ سکو اور ہر ایک بیوی کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ نہ  رکھ سکو تو بس ایک ہی بیوی پر قناعت کرو،ایک سے زیادہ نکاح مت کرو،اور اگر کرو تو پھر مساوات لازم ہے،یہ مساوات اور برابری کھانے ،پینے،نان ونفقہ،لباس و پوشاک ،رہائش کی فراہمی ،رات گزارنےاور تحائف  ،سب میں لازم اورضروری ہے؛لہذا اگر ایک رات ایک بیوی کے پاس گزاری جاۓتو دوسری بیوی کے پاس بھی ایک رات گزارنا ضروری ہے، تاہم ہمبستری میں برابری ضروری نہیں ہے،اسی طرح کسی ایک بیوی کی طرف زیادہ میلان  پر چوں کہ انسان کا اختیار نہیں،اس لیے اس میں مؤاخذہ نہیں  ہے،لیکن ظاہری رہن سہن ، سلوک اور برتاؤ میں کچھ فرق نہ ہونا چاہیے،اگر  شوہر بیویوں کے درمیان برابری کرنے میں ناانصافی اور کمی بیشی سے کام لے کر غفلت برتے گایا جان  بوجھ کر ایسا کرے گاتو سخت گناہ گار ہوگا،حدیث میں ایسے شوہر کے لیے   اللہ تعالیٰ  کی طرف سے شدید پکڑ کی وعید سنائی گئی ہے،تاکہ لوگ اس معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہیں ،چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی دو بیویاں(یا اس سے زائد ) ہوں اور وہ ان کے درمیان برابری نہ کرے تو وہ قیامت  کے دن اس حال میں آۓ گا کہ اس کے  جسم کا ایک حصہ  گِراہوا(یعنی فالج زدہ) ہوگا۔

مذکورہ تفصیل کے بعد آپ کے شوہر کا ذکر کردہ  طریقہ انتہائی نامناسب ہے،جس پر وہ سخت گناہ گار ہواہے،آپ کے شوہر پر لازم ہے کہ وہ   شریعت کے اس انتہائی اہم حکم کی مکمل پاسداری کرے اورآپ سے معافی مانگ کر آئندہ کے لیےآپ کی  حق تلفی سے بچے،جس طرح پہلی بیوی کے حقوق مکمل طور پر ادا کررہا ہے بالکل اسی طرح دوسری بیوی  یعنی آپ کے حقوق بھی ادا کرے،اور دونوں بیویوں کے لیے باری مقرر کرے،ورنہ  اس روش کی وجہ سےشوہر ظالم شمارہوگااور اللہ کے یہاں اس کی پکڑہوگی۔

مذکورہ بالا مساوات کا حکم اس صورت میں ہے کہ جب سفر کی حالت نہ ہو ،ورنہ اگر شوہر پندرہ دن سے کم کے لیے سفر پر جاۓ تو اس صورت میں برابری ضروری نہیں ،  دونوں بیویوں میں سے جس کو ساتھ لے جانا چاہے ،لے جا سکتا ہے،البتہ بہتر یہ ہے کہ سفر پر جاتے وقت قرعہ اندازی کرلے اور جس بیوی کا نام آۓ اسے ساتھ لے جاۓ۔

باقی آپ کا یہ مطالبہ کہ جتنے عرصے تک شوہر پہلی بیوی کے ساتھ رہا ہے اتناعرصہ اب صرف آپ کے ساتھ رہے تو اگرچہ اس کا یہ عمل ناجائز اور گناہ تھا لیکن شرعاً شوہر پر یہ پابندی لازم نہیں ،تاہم آئندہ ہر صورت میں  اس پر  دونوں بیویوں  کی باری کا مکمل خیال رکھنا لازم ضروری ہے۔نیز شوہر کے غلط رویے کی وجہ سے آپ کو شوہر پر ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا،اس پر آپ شوہر سے معافی مانگ لیں  اور شوہر اورسوکن کو برا بھلا کہنے سے بھی اجتناب کریں ،کیوں کہ اس سے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہوگا،  شوہر اور سوکن دونوں کے ساتھ اللہ کی رضا کی خاطر حسن ِسلوک برقرار رکھیں ، اللہ تعالیٰ  آسانی پیدا فرمائے۔ 

قرآن کریم ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوا مَا طابَ لَكُمْ مِنَ النِّساءِ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ ‌فَإِنْ ‌خِفْتُمْ ‌أَلَاّ ‌تَعْدِلُوا فَواحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ ذلِكَ أَدْنى أَلَاّ تَعُولُوا.(النساء:3)"

ترجمہ:"اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگےتو اور عورتوں سے جو تم کو پسند ہوں نکاح کرلو دو دو (عورتوں سے) اور (تین تین عورتوں سے) اور چار چار (عورتوں سے) پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھو گے تو پھر ایک ہی (بی بی پر بس کرو) یا جو لونڈی تمھاری ملک میں ہو (وہی سہی) اس (امرمذکور) میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب تر ہے."(بیان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

"وَ عَاشِرُوْهُنَّ  بِالْمَعْرُوْفِۚ."(النساء:19)

ترجمہ:"اور عورتوں کے ساتھ خوبی سے گزران کیا کرو."(بیان القرآن)

سنن ابو داؤد میں ہے:

"...عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل...

...عن عائشة قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقسم فيعدل، ويقول: "‌اللهم ‌هذا قسمي فيما أملك، ‌فلا تلمني فيما تملك ولا أملك" قال أبو داود: يعني القلب....

عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: قالت عائشة: يا ابن أختي، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يفضل بعضنا على بعض في القسم، من مكثه عندنا، وكان قل يوم إلا وهو يطوف علينا جميعا، فيدنو من كل امرأة من غير مسيس حئى يبلغ إلى التي هو يومها فيبيت عندها."

(أول کتاب النکاح، باب في القسم بين النساء، ج:3، ص:469،470، دارالرسالة العالمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب... وفی الرد: قال في البحر: قال في البدائع: يجب عليه التسوية بين الحرتين والأمتين في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة، وهكذا ذكر الولوالجي... (قوله والصحبة) كان المناسب ذكره عقب قوله في البيتوتة لأن الصحبة أي المعاشرة والمؤانسة ثمرة البيتوتة. ففي الخانية: ومما يجب على الأزواج للنساء: العدل والتسوية بينهن فيما يملكه، والبيتوتة عندهما للصحبة، والمؤانسة لا فيما لا يملكه وهو الحب والجماع... (قوله بل يستحب) أي ما ذكر من المجامعة ح. أما المحبة فهي ميل القلب وهو لا يملك. قال في الفتح: والمستحب أن يسوي بينهن في جميع الاستمتاعات من الوطء والقبلة."

(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج:3، ص:201، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(ولو) (أقام عند واحدة شهرا في غير سفر ثم خاصمته الأخرى) في ذلك (يؤمر بالعدل بينهما في المستقبل وهدر ما مضى وإن أثم به) لأن القسمة تكون بعد الطلب.... (ولا قسم في السفر) دفعا للحرج (فله السفر بمن شاء منهن والقرعة أحب) تطييبا لقلوبهن.

قوله في غير سفر) أما إذا سافر بإحداهما ليس للأخرى أن تطلب منه أن يسكن عندها مثل التي سافر بها ط عن الهندية (قوله وهدر ما مضى) فليس لها أن تطلب أن يقيم عندها مثل ذلك ط عن الهندية."

(کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ج:3، ص:205،206، ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(الباب الحادي عشر في القسم) ومما يجب على الأزواج للنساء العدل والتسوية بينهن فيما يملكه والبيتوتة عندها للصحبة والمؤانسة لا فيما لا يملك وهو الحب والجماع كذا في فتاوى قاضي خان. والعبد كالحر في هذا كذا في الخلاصة. فيسوي بين الجديدة والقديمة والبكر والثيب والصحيحة والمريضة..."

(کتاب النکاح، الباب الحادي عشر في القسم، ج:1، ص:340، ط:رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے:

" فإن كان له أكثر من إمرأة، فعليه العدل بينهن في حقوقهن من القسم والنفقة والكسوة، وهو التسوية بينهن في ذلك حتى لو كانت تحته امرأتان حرتان أو أمتان يجب عليه أن يعدل بينهما في المأكول والمشروب والملبوس والسكنى والبيتوتة.

والأصل فيه قوله عز وجل: {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدةً} [النساء:3] عقيب قوله تعالى: {فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنى وثلاث ورباع} [النساء: 3] أي: إن خفتم أن لاتعدلوا في القسم والنفقة في نكاح المثنى، والثلاث، والرباع، فواحدة. ندب سبحانه وتعالى إلى نكاح الواحدة عند خوف ترك العدل في الزيادة."

(كتاب النكاح، فصل: وجوب العدل بين النساء في حقوقهن، ج:2، ص: 332، ط:دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"اختلف الفقهاء في قضاء ما فات من القسم:فذهب الحنفية والمالكية إلى أن القسم يفوت بفوات زمنه سواء فات لعذر أم لا، فلا يقضى، فليس للتي فاتت ليلتها ليلة بدلها، لأن القصد من القسم دفع الضرر الحاصل في الحال، وذلك يفوت بفوات زمنه، ولو قلنا بالقضاء، لظلمت صاحبة الليلة المستقبلة.

وقال العيني نقلا عن المحيط والمبسوط: الزوج لو أقام عند واحدة شهرا ظلما، ثم طلب القسم من الباقيات، أو بغير طلب، فليس عليه أن يعوض، لأنه ليس بمال، فلم يكن عليه دينا في الذمة، لكنه ظالم يوعظ، فإن استمر يؤدب تعزيرا."

(قضاء، ‌‌قضاء ما فات من القسم بين الزوجات، ج:34، ص:45، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100832

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں