میرا شوہر میری مطلقہ بہن کے ساتھ بات چیت کرتا تھا، میں منع کرتی تو مجھے مار پیٹ کرتا تھا، اور میرے بارے میں میری والدہ کو کہا کہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس کے ہاتھ کا کھانا بھی مجھ پرحرام ہے“، اس کے بعد مجھے کئی بار یہ کہا کہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تمھارے ساتھ ایک بستر پر سونا میرے لیے حرام ہے“، ان دو جملوں کے بارے میں میرے شوہرکی کیا نیت تھی یہ معلوم نہیں ہے، ایک مرتبہ مجھے یہ کہا کہ ”میں نے تمھیں طلاق دی“، اور ابھی 24 جون 2024ء کو میرے شوہر نے میری چھوٹی بہن سے شادی کرلی ہے، مجھے طلاق دینے اور اس شادی کے درمیان تقریباً ڈیڑھ مہینے کا وقت گزرا ہے، جبکہ طلاق کے بعد میری بہن سے شادی سے پہلے شوہر نے مجھ سے عملی رجوع بھی کرلیا تھا (صحبت کی تھی)، اور اس کے بعد دوبارہ طلاق بھی نہیں دی، صرف یہ بات بار بار بولتا تھا کہ ”تمھارے ساتھ ایک بستر پر سونا میرے لیے حرام ہے“
27 اکتوبر کو میں نے عدالت میں اپنے شوہر سے خلع لینے کےلیے درخواست دائر کی، اس کی دو پیشیاں بھی ہوئی ہیں، ایک میں بھی شوہر حاضر نہیں ہوا، اب میری والدہ دوسری جگہ میری شادی کروانا چاہتی ہیں؛ کیونکہ والدہ خودبیمار ہیں، اور میرا کوئی اور سرپرست نہیں ہے، اب میری شرعی راہ نمائی فرمائیے کہ میں عدالت سے خلع لے کر دوسری جگہ شادی کرسکتی ہوں؟
وضاحت:۔ میری بہن سے شادی کے بعد سے شوہر میری بہن کے ساتھ مجھ سے الگ رہتا ہے، شروع میں چند ماہ تک خرچہ دیا، ابھی خرچہ بھی نہیں دیتا۔
”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تمھارے ساتھ ایک بستر پر سونا میرے لیے حرام ہے“کے الفاظ شوہر بار بار کہتا تھا، اور اس وقت میں شوہر کے ساتھ ہی تھی، ہمارے آپس میں ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوتے رہے ہیں(درمیان میں چار مہینے کا وقفہ نہیں گزرا)۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اس کے ہاتھ کا کھانا بھی مجھ پرحرام ہے“ کے جو الفاظ کہے ہیں یہ قسم کے الفاظ ہیں، اس کے بعد شوہر نے اگر سائلہ کے ہاتھ کا کھانا کھایا ہو یا آئندہ کھالے تو قسم میں حانث ہوجائے گا، اور قسم کا کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا۔
قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلائے، یا دس مسکینوں کو (درمیانہ درجہ کا) لباس مہیا کرے، اور اگر ان میں سے کسی چیز کی استطاعت بھی نہ ہو تو تین دن مسلسل روزے رکھے۔
اور شوہر کایہ کہنا کہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تمھارے ساتھ ایک بستر پر سونا میرے لیے حرام ہے“یہ الفاظ ایلاء کے کنائی الفاظ ہیں، اگر ان الفاظ سے شوہر نے ایلاء (کہ میں چار مہینے تک یا ساری زندگی اپنی بیوی سے جماع نہ کرنے کی قسم)کی نیت کی ہو تو ایلاء واقع ہوجائے گا، اور اس کے بعد چار مہینے کے اندر اندر جماع کرلیا تو قسم میں حانث ہوجا ئے گا، اور قسم کا (مذکورہ بالا) کفارہ ادا کرنا ہوگا، اور نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور اگر چار مہینے تک جماع نہ کیا تو ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔
لیکن صورتِ مسئولہ میں چونکہ سائلہ کے شوہر نے یہ الفاظ کہنے کے بعد چار مہینے کے اندر جماع کرلیا تھا اس لیے بہر صورت سائلہ کا اپنے شوہر سے نکاح برقرار ہے۔
اور شوہر نے ”میں نے تمھیں طلاق دی“ کے الفاظ بھی بولے ہیں تو اس سے ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی تھی، اس کے بعد عملی رجوع بھی کرلیا تو تجدید نکاح کی ضرورت نہیں، اور شوہر کے پاس مزید دو طلاقوں کا اختیار باقی ہے۔
اسی طرح اپنی بیوی سے نکاح باقی رہتے ہوئے سالی (سائلہ کی بہن) سے نکاح کرنے سے سائلہ کے شوہر کا اپنی سالی سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا کیونکہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے، لہذا ان دونوں کا ایک ساتھ رہنا ناجائز اور حرام ہے، جسمانی تعلق قائم کرنا بدکاری (زنا) ہے، ان دونوں پر لازم ہے فوراً ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں، اور سابقہ عمل پر سچے دل سے توبہ کریں۔
لہٰذا اگر سائلہ اسی شوہر کو راضی کرلیتی ہے تو بہتر یہی ہے کہ طلاق لینے کی بجائے آپس میں صلح کرکے اسی شوہر کے ساتھ زندگی بسر کرے، اور اگر کوشش کے باوجود یہ خدشہ ہو کہ اس شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے شرعی احکام کی پابندی نہیں ہوسکے گی تو شوہر کو کچھ مال دے کر خلع لے لے۔
البتہ اگر شوہر خلع دینے پر بھی آمادہ نہ ہو، اور نفقہ دینے اور اپنا رویہ تبدیل کرنے پر بھی تیار نہ ہو، تو اس صورت میں سائلہ مسلمان قاضی/ جج کی عدالت میں حاضر ہوکر اس کے سامنے اپنے نکاح اور اس کے بعد شوہر کے اس تعنت (خرچہ نہ دینے اور ظلم کرنے) کے دعویٰ کو دو شرعی گواہوں کی گواہی سے ثابت کرے، اس کے بعد قاضی/ جج شوہر کو بلا کر اسے حکم دے کہ اپنی بیوی کے حقوق نان نفقہ ادا کرو، اور ظلم سے رُک جاؤ ، یا طلا ق دے دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اس کے بعد بھی اگر وہ انکار کرے، یا عدالت میں حاضر ہی نہ ہو تو جج/ قاضی کو اختیار حاصل ہوگا کہ نکاح کو فسخ کردے، فسخِ نکاح کے بعد عدت گزار کر سائلہ کسی اور شخص سے نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
لہٰذا جب تک شوہر طلاق یا خلع نہ دے دے، یا عدالت سے مذکورہ طریقہ کے مطابق نکاح کی تنسیخ ہو کر اس کے بعد عدت نہ گزرجائے سائلہ کےلیے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
"حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهاتُكُمْ وَبَناتُكُمْ وَأَخَواتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخالاتُكُمْ وَبَناتُ الْأَخِ وَبَناتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهاتُكُمُ اللَاّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَواتُكُمْ مِنَ الرَّضاعَةِ وَأُمَّهاتُ نِسائِكُمْ وَرَبائِبُكُمُ اللَاّتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسائِكُمُ اللَاّتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلا جُناحَ عَلَيْكُمْ وَحَلائِلُ أَبْنائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلابِكُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَاّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّهَ كانَ غَفُوراً رَحِيماً." (النساء:23)
ترجمہ:”تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں اور تمہاری بہنیں اور تمہاری پھوپھیاں اور تمہاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں اور تمہاری بیبیوں کی مائیں اورتمہاری بیبیوں کی بیٹیاں جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو توتم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہو چکا بے شک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے ولے بڑی رحمت والے ہیں۔“ (بیان القرآن)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله كقوله والله لا أقربك أربعة أشهر أو، والله لا أقربك) لقوله تعالى {لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ} [البقرة:226] وأفاد بالمثالين أنه لا فرق بين تعيين المدة أو الإطلاق لأنه كالتأبيد، وبإطلاقه إلى أن هذا اللفظ صريح فيه لأنه لم يشترط فيه النية، ومثله لا أجامعك لا أطؤك لا أباضعك لا أغتسل منك من جنابة فلو ادعى أنه لم يعن الجماع لا يصدق قضاء، ويصدق ديانة، والكناية كل لفظ لا يسبق إلى الفهم معنى الوقاع، ويحتمل غيره ما لم ينو نحو لا أمسك، ولا آتيك، ولا أغشاك لا ألمسك لأغيظنك لأسوءنك لا أدخل عليك لا أجمع رأسي، ورأسك لا أضاجعك لا أدنو منك لا أبيت معك في فراش لا يمس جلدي جلدك لا أقرب فراشك فلا يكون إيلاء بلا نية، ويدين في القضاء، وفي غاية البيان معزيا إلى الشامل حلف لا يقربها، وهي حائض لا يكون موليا لأن الزوج ممنوع عن الوطء بالحيض فلا يصير المنع مضافا إلى اليمين اهـ."
(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ج:4، ص:101، ط:دار الكتب العلمية)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"(وأما الكناية) فكل لفظ لا يسبق إلى الفهم معنى الوقاع منه ويحتمل غيره فما لم ينو لا يكون إيلاء كقوله لا أمسها لا آتيها لا أدخل بها لا أغشاها لا يجمع رأسها ورأسي لا أبيت معك في فراش لا أصاحبها لا يقرب فراشها أو ليسوءنها أو ليغيظنها كذا في محيط السرخسي."
(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ج:1، ص:510، ط:دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وكفارته) .... (تحرير رقبة أو إطعام عشرة مساكين) كما مر في الظهار (أو كسوتهم بما) يصلح للأوساط وينتفع به فوق ثلاثة أشهر، و (يستر عامة البدن) فلم يجز السراويل إلا باعتبار قيمة الإطعام..... (وإن عجز عنها) كلها (وقت الأداء) عندنا،......(صام ثلاثة أيام ولاء)."
(کتاب الأیمان، ج:3، ص:725، ط: سعید)
الحيلة الناجزةمیں ہے:
"والمتعنت الممتنع عن الإنفاق ففي مجموع الأمیر ما نصه : إن منعھا نفقة الحال فلها القیام فإن لم یثبت عسرہ أنفق أو طلق و إلا طلق علیه، قال محشیه: قوله: وإلا طلق علیه أي طلق علیه الحاکم من غیر تلومإلی أن قال: وإن تطوع بالنفقة قریب أو أجنبي فقال ابن القاسم: لها أن تفارق لأن الفراق قد وجب لها، وقال ابن عبد الرحمن: لا مقال لها لأن سبب الفراق هو عدم النفقة قد انتهی وهو الذی تقضیه المدونة کما قال ابن المناصب، انظر الحطاب، انتهی."
(الرواية الثالثة والعشرون، ص: 150، ط:دار الإشاعت كراچي)
وفیہ ایضاً:
”اور صورت تفریق کہ یہ ہے کہ عورت اپنا مقدمہ قاضی اسلام یا مسلمان حاکم اور ان کے نہ ہونے کی صورت میں جماعت المسلمین کے سامنے پیش کرے اور جس کے پاس پیش ہو وہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کے ذریعہ سے پوری تحقیق کرے اور اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہو کہ باوجود وسعت کے خرچ نہیں دیتا تو اس کے خاوند سے کہا جائے کہ اپنی عورت کے حقوق ادا کرو یا طلاق دو، ورنہ ہم تفریق کردیں گے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ ظالم کسی صورت پر عمل نہ کرے تو قاضی یا شرعاً جو اس کے قائم مقام ہو طلا ق واقع کردے۔“
(حکم زوجہ متعنت، تفریق کی صورت اور اس کی شرائط، ص:72، ط:دار الاشاعت کراچی)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607102772
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن