بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی پر بے نمازی شوہر کے حقوق کی ادائیگی / بے نمازی کے ساتھ تعلقات رکھنے کا حکم


سوال

1) جو شخص کوئی نماز نہیں پڑھتا اس کے لیے کیا حکم ہے؟

2) ایسے شخص کی بیوی کے لیے کیا حکم ہے کہ بیوی اس کے حقوق ادا کرے یا نہیں؟

3) اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا کیا حکم ہے؟

جواب

1) واضح رہے کہ سستی اور کاہلی کی وجہ سے قصداً نماز چھوڑنا کفر کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، نماز چھوڑنے والے کے متعلق قرآن و حدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، نماز کو اسلام اور کفر کے درمیان حدِ فاصل قرار دیا گیا ہے، نماز کو دین کا اہم رکن کہا گیا ہے، نماز چھوڑنے والا  اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ذمہ سے بری ہوجاتا ہے، نبی کریم ﷺ نے نماز چھوڑنے والے کا حشر فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہونا بتلایا ہے، بے نمازی جب اللہ تعالی سے ملاقات کرے گا تو اللہ تعالی اس پر (سخت) ناراض ہوں گے، علماء نے لکھا ہے کہ نماز چھوڑنے کی وجہ سے انسان کفر کے قریب چلا جاتا ہے اور کفر پر موت ہونے کا خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، اس لیے نماز کسی بھی حال میں نہیں چھوڑنا چاہیے، تاہم علماء نے لکھا ہے کہ بے نمازی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، مسلمان ہی رہتا ہے، شریعت کی رو سے بے نمازی فاسق (گناہ گار) ہے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي سفيان، قال: سمعت جابرا، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن ‌بين ‌الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة."

(صحیح مسلم، ج: 1، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق الکفر علی من ترک الصلوۃ، ص: 88، ط: دار احیاء التراث العربی)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عمر، رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم  بني الإسلام على خمس: شهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان۔"

(صحیح بخاری، ج: 1، کتاب الایمان، باب قول النبی ﷺ بنی الاسلام علی خمس، ص: 11، ط: دار طوق النجاۃ)

الترغیب و الترہیب میں ہے:

"عن أم أيمن رضي الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا تترك الصلاة متعمدا فإنه من ترك الصلاة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله ورسولهرواه أحمد والبيهقي۔"

(الترغیب و الترہیب، ج: 1، کتاب الصلوۃ، ص: 216، ط: دار الکتب العلمیہ)

و فیہ ایضاً:

"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه ذكر الصلاة يوما فقال من حافظ عليها كانت له نورا وبرهانا ونجاة يوم القيامة ومن لم يحافظ عليها لم يكن له نور ولا برهان ولا نجاة وكان يوم القيامة مع قارون وفرعون وهامان وأبي بن خلف۔ رواه أحمد بإسناد جيد والطبراني في الكبير والأوسط وابن حبان في صحيحه۔"

(الترغیب و الترہیب، ج: 1، کتاب الصلوۃ، ص: 216، ط: دار الکتب العلمیہ)

و فیہ ایضاً:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال لما قام بصري قيل نداويك وتدع الصلاة أياما قال لا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من ترك الصلاة لقي الله وهو عليه غضبان۔رواه البزار والطبراني في الكبير وإسناده حسن۔"

(الترغیب و الترہیب، ج: 1، کتاب الصلوۃ، ص: 214، ط: دار الکتب العلمیہ)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"من تركها تكاسلا وتهاونا فهو فاسق عاص۔"

(الفقہ الاسلامی، ج: 1، القسم الاول: العبادات، الفصل الاول، ص: 659، ط : دار الفکر)

2)شوہر اگرچہ بے نمازی اور فاسق ہو،  بیوی پر اپنے شوہر کے حقوق کی ادائیگی شرعاً لازم ہے، بیوی شوہر کے حقوق ادا کرتے ہوئے نرم اور احسن انداز میں اپنے شوہر کو نماز کی ترغیب دےسکتی ہے، لیکن اس کی وجہ سے شوہر کے حقوق میں کوتاہی کرنا اس کے لیے جائز نہیں،  بیوی کو چاہیے کہ اللہ تعالی سے شوہر کی ہدایت کے لیے دعا کرتی رہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وقد ذكر أحكامه في البدائع في فصل على حدة فقال: منها حل الوطءومنها وجوب طاعته عليها إذا دعاها إلى الفراش."

(البحر الرائق، ج: 3، کتاب النکاح، ص: 84، ط: دار الکتاب الاسلامی)

3)بے نمازی اگرچہ فاسق اور گناہ گار ہے لیکن چوں کہ ترکِ صلوۃ کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا،  اس لیے مسلمانوں والے تمام معاملات بے نمازی کے ساتھ بھی جائز ہیں، تاہم اگر یہ امید ہو کہ بے نمازی کے ساتھ تعلقات ختم کرنے سے یا معاشرتی بائیکاٹ کرنے سے اسے اپنی غلطی پر ندامت ہوگی اور وہ نماز پڑھنے لگے گا تو ایسی صورت میں اس سے تعلق ختم کرنا جائز ہے، بلکہ اگر تعلق ختم کرنے سے اس کے پابندِ صلوۃ ہونے کا ظنِ غالب ہو تو اس صورت میں اس سے تعلق ختم کرنا ضروری ہے، اسی طرح اگر غالب گمان یہ ہو کہ اس کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے سے وہ نمازی ہوجائے گا تو اس کے ساتھ تعلقات رکھ کر اصلاح کی کوشش کرتے رہنا ہی خیر خواہی کا تقاضا ہے۔

درِ مختار میں ہے:

"جاز (عيادة فاسق) على الأصح لأنه مسلم والعيادة من حقوق المسلمين."

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اختلفوا في عيادة الفاسق والأصح أنه لا بأس بها."

(فتاوی ہندیہ، ج: 5، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع عشر فی اہل الذمۃ و الاحکام الذی تعود الیہم، ص: 348، ط: مکتبہ رشیدیہ)

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا وكيع، عن سفيان، ح وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة كلاهما، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب - وهذا حديث أبي بكر - قال: أول من بدأ بالخطبة يوم العيد قبل الصلاة مروان. فقام إليه رجل، فقال: الصلاة قبل الخطبة، فقال: قد ترك ما هنالك، فقال أبو سعيد: أما هذا فقد قضى ما عليه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان."

(صحیح مسلم، ج: 1، کتاب الایمان، باب بیان کون النہی عن المنکر من الایمان، ص: 69، ط: دار احیاء التراث العربی)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"ثم ان الهجران الممنوع انما هو ما كان لسبب دنيوي، اما اذا كان بسبب فسق المرء و عصيانه فاكثر العلماء علي جوازه، قال الخطابي: رخص للمسلم ان يغضب علي اخيه ثلاث ليال لقلته، و لا يجوز فوقها الا اذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالي، فيجوز فوق ذلك ، و في حاشية السيوطي علي المؤطا: قال ابن عبدالبر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك و رفيقيه حيث امرصلي الله عليه و سلم اصحابه بهجرهم، يعني زيادة علي ثلاث الي ان بلغ خمسين يوماو حاصل ذلك: ان الهجران انما يحرم اذا كان من جهة غضب نفساني، اما اذا كان علي وجه التغليط علي المعصية و الفسق او علي وجة التاديب كما وقع مع كعب بن مالك و صاحبيه  او كما وقع لرسول الله صلي الله عليه مع ازواجه او لعائشة مع ابن الزبير رضي الله عنه فانه ليس من الهجران الممنوع والله سبحانه اعلم."

(تکملہ فتح الملہم، ج: 5، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، باب تحریم الھجر فوق ثلاث بلاعذر شرعی، ص: 275، ط: دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں