بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹا کے علاج کے لیے انشورنس کھلوانا


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میرا بھائی چائنا کے ایک یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے، اس کے ساتھ اس کی فیملی بھی ہے، اب اسکا بیٹا بیمار ہوا ہے، اور ہسپتال میں داخل ہے، اب اس کے علاج پر  بہت پیسہ آتا ہے،میں اب اس کے لیےانشورنس اکاؤنٹ کھلوانا چاہتا ہوں ،جس میں تقریباً آدھا علاج چائنا حکومت اپنے خرچہ سے کرےگی اور آدھا میرے ذمہ  ہے،کیا اس بچے کےعلاج کے لیے انشورنس کھلوانا جائزہے؟

جواب

واضح رہے کہ جمہور  علماءِ کرام کے نزدیک  کسی بھی قسم کی  بیمہ (انشورنس) پالیسی اور بیمہ کی تمام پالیسیاں (لائف انشورنس، ہیلتھ انشورنس، ایجوکیشن انشورنس، میرج انشورنس، گاڑی وغیرہ کی انشورنس یا اس کے علاوہ دیگر پالیسیاں)   سود اور قمار (جوا) کا مرکب  ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے،  انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  کیوں کہ شر یعت میں ایک جنس کی رقم  کاتبادلہ اگر  آپس میں  کیا جائے تو برابری کے ساتھ لین دین کرنا ضروری ہوتا ہے، کمی بیشی کے ساتھ لین دین کرنا سود ہے۔ اور اس میں  جوا بھی شامل ہے ، ''جو ا'' جسے عربی زبان میں’’قمار‘‘کہا جاتا ہے در حقیقت ہر وہ معاملہ ہے جس میں’’مخاطرہ ہو‘‘، یعنی قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد  پرہو، اور انشورنس میں  "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہوتو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔لہذاسائل کے بھائی کا اپنے بیٹے کے علاج  کےلیےانشورنس اکاؤنٹ کھلوانا   شرعا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر چا ئنا حکومت آدھا علاج اپنے خرچہ سے کرتی ہو،انشورنس کمپنی سے رقم نہ لیتی ہو،اسی طرح بقایا آدھا خرچ سائل ادا کرے، تو ایسی صورت میں مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا اور استعمال کرنا جائز ہوگا یعنی اس رقم سے علاج کروانا جائز ہو گا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ . فَإِن لَّمْ تفعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ . وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ."(سورة البقرة: ٢٧٨-٢٨٠)

ترجمہ: "اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو  اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طر ف سے اور اگر تم توبہ کرلوگےتو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر کوئی  ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ "

(بیان القرآن، ج:1، ص:200، ط: دارالاشاعت )

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار; قال ابن عباس: ‌إن ‌المخاطرة ‌قمار وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحا إلى أن ورد تحريمه ".

(باب تحريم الميسر، ج:1، ص:398، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:403، ط:سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں