بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیس سال تک اپنی بہن سے بات چیت نہ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص پانچ وقت کی نمازیں، خیرات، زکوۃ، تلاوتِ قران  اور دیگر تمام دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے، لیکن پچھلے بیس سال سے چھوٹی بہن سے سلام دعا اور بات نہیں کرتاہے  اور نہ ہی کوئی لین دین کرتاہے، شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص کے لیے بغیر کسی شرعی سبب کے بیس سال سے اپنی بہن سے بات چیت یا  لین دین نہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے،  قرآن وحدیث میں اعزہ اور اقارب کے ساتھ صلح رحمی کا حکم دے کر اسے اللہ کی رضامندی کا ایک ذریعہ قرار دیاگیاہے اور قطع تعلق  سے منع کرکے اسے دنیا وآخرت کے خسارہ کا سبب قرار دیاہے، چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

"فَاٰتِ ذَا الْقُرْبیٰ حَقَّه وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّـلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَ اللهِ وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ."[الروم:35]

ترجمہ: "اور پھر قرابت داروں کو اس کا حق دیا کرو اور مسکین اور مسافر کو بھی، یہ ان لوگوں کے لیے بہترہے جو اللہ کی رضامندی کا طالب ہیں اور ایسے لوگ فلاح پانے والے ہیں"۔

(بیان القرآن، سورۃ الروم، ج:3، ص:136، ط:رحمانیہ)

ایک حدیث میں ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن تک بات چیت بند کرے، اور ان دونوں میں بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کرے:

"عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل للرجل أن ‌يهجر ‌أخاه ‌فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذاوخيرهما الذي يبدأ بالسلام» . متفق عليه".

(مشكاة المصابیح، كتاب الآداب، باب ماینهی عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات،ج:2، ص: 441، ط:رحمانيه)

حدیث شریف صلح رحمی کو اللہ سے قرب کا ذریعہ اور قطع رحمی کو اللہ سے دوری کا ذریعہ قرار دیا گیاہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:

"وعن عبد الرحمن بن عوف قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " قال الله تبارك وتعالي: ‌أنا ‌الله وأنا الرحمن خلقت الرحم وشققت لها من اسمي فمن وصلها وصلته ومن قطعها بتته ". رواه أبو داود".

(مشكاة المصابيح، كتاب الآداب، باب البر والصلة،ج:2، ص: 433، ط:رحمانيه)

ايك  حدیث میں صلح رحمی كو فراخی رزق كا سبب كا قرار ديا گياہے، چنانچہ ارشادِ گرامی ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أحب أن يبسط له في رزقه وينسأ له في أثره ‌فليصل ‌رحمه» . متفق عليه".

(مشكاة المصابیح، كتاب الآداب، باب البر والصلة،ج:2، ص: 433، ط:رحمانيه)

ايك  اور حدیث میں قطع رحمی کو دنیا وآخرت کے خسارہ کا سبب قرار دیا گیاہے، چنانچہ آپ صلی اللہ کا ارشاد ہے:

"وعن أبي بكرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما من ذنب أحرى أن يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا مع مايدخر له في الآخرة من ‌البغي وقطيعة الرحم» . رواه الترمذي وأبو داود".

(مشكاة المصابیح، كتاب الآداب، باب البر والصلة،ج:2، ص: 433، ط:رحمانيه)

لہٰذا مذکورہ  شخص کو چاہیے کہ مذکورہ بالا روایات  میں صلہ رحمی کے فضائل اور قطع تعلق کے نقصانات کو  مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی بہن کے ساتھ صلح رحمی اور حسن سلوک کرے، اور بیس سال تک قطع تعلق کرنے پر توبہ و استغفار کرے اور آئندہ بلا عذر شرعی قطع تعلق کرنے سے اجتناب کرے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں