بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیس لاکھ کی زمین کی موجودگی میں حج کی فرضیت


سوال

 ایک شخص کے پاس 20لاکھ روپے ہیں ،اس نے یہ رقم ضروریات میں خرچ کردی مثلا زمین وغیرہ لے لی، لیکن اب حج کے وقت اس کے پاس پیسے موجود نہیں ہیں ، یعنی کہ عید الفطر کے بعد اس کے پاس حج کرنے کے لیے پیسے نہیں، تو کیا وہ شخص خریدی ہوئی زمین بیچ کر حج کرے گا یا اس پر حج فرض نہیں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر  بیس لاکھ روپے حج کی درخواستیں جمع کرانے کے زمانے میں موجود تھے، تو اس شخص پر حج فرض ہوچکا ہے، اب اس کی ادائیگی کا اہتمام کرے، خواہ اس کے لیے زمین فروخت کرنی پڑے اور اگر حج کی درخواستیں جمع کرانے کے زمانے میں یہ رقم موجود نہیں تھی، بلکہ اس سے پہلے ہی زمین خرید لی تھی، تو اگر  مذکورہ زمین اپنی ذاتی رہائش اختیار کرنے کے لیے خرید ی ہے ،اور مناسب وقت میں اس زمین پر رہائش اختیار کرنے کا اراد ہ ہے ، اور اس زمین کے علاو ہ سائل کی ملکیت میں ضروریا ت اصلیہ سے زائد اتنا مزید مال نہ ہوجس سے حج کے مکمل اخراجات اور سفر کے دوران گھر والوں کےبنیادی  اخراجات  پورے ہوتے ہوں ، تو ایسی صورت میں اس شخص پر حج  فرض نہیں ہے ۔

البتہ اگر مذکورہ زمین مذکورہ شخص  نے تجارت کی غرض سے خرید ی ہے ،اور اس میں ذاتی رہائش اختیار کرنے کی نیت نہیں تھی ، تو ایسی صورت میں اس  پر حج فرض ہے ،اورمذکورہ  زمین کو بیچ کر حج  پر جانے کی ترتیب بنائے ،اگر فوری طور یہ دشوار ہوتو قرض لے کر حج پر چلاجائے اور بعد میں زمین فروخت کرکے اپنا قرضہ اتار دے۔

فتاوٰی عالمگیری میں ہے:

"(ومنها القدرة على الزاد والراحلة)...وتفسير ملك الزاد والراحلة أن يكون له مال فاضل عن حاجته، وهو ما سوى مسكنه ولبسه وخدمه، وأثاث بيته قدر ما يبلغه إلى مكة ذاهبا وجائيا راكبا لا ماشيا وسوى ما يقضي به ديونه ويمسك لنفقة عياله، ومرمة مسكنه ونحوه إلى وقت انصرافه كذا في محيط السرخسي."

(کتاب المناسک، الباب الأول في تفسیر الحج وفرضیته ووقته: ج:1، ص:217، ط: دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"قال بعض العلماء: إن كان الرجل تاجرا يعيش بالتجارة فملك مالا مقدار ما لو رفع منه الزاد والراحلة لذهابه، وإيابه ونفقة أولاده وعياله من وقت خروجه إلى وقت رجوعه ويبقى له بعد رجوعه رأس مال التجارة التي كان يتجر بها كان عليه الحج، وإلا فلا، وإن كان محترفا يشترط لوجوب الحج أن يملك الزاد والراحلة ذهابا، وإيابا ونفقة عياله، وأولاده من وقت خروجه إلى رجوعه ويبقى له آلات حرفته، وإن ‌كان ‌صاحب ‌ضيعة إن كان له من الضياع ما لو باع مقدار ما يكفي الزاد والراحلة ذاهبا وجائيا ونفقة عياله، وأولاده ويبقى له من الضيعة قدر ما يعيش بغلة الباقي يفترض عليه الحج، وإلا فلا."

(كتاب المناسك ،الباب الأول في تفسير الحج وفرضيته ووقته وشرائطه وأركانه ،ج:1،ص:218، ط: دار الفکر)

الدر المختارمع رد المحتار میں ہے:

"(ذي زاد) يصح به بدنه فالمعتاد اللحم و نحوه إذا قدر على خبز وجبن لايعد قادرًا (و راحلة) ... (فضلًا عما لا بدّ منه) كما مر في الزكاة ... و حرّر في النهر: أنّه يشترط بقاء رأس مال لحرفته إن احتاجت لذلك وإلا لا ... (و) فضلًا عن (نفقة عياله) ممن تلزمه نفقته لتقدم حق العبد (إلى) حين (عوده) و قيل: بعده بيوم و قيل: بشهر (مع أمن الطريق).

(قوله: يشترط بقاء رأس مال لحرفته) كتاجر ودهقان ومزارع كما في الخلاصة، و رأس المال يختلف باختلاف الناس، بحر. قلت: و المراد ما يمكنه الاكتساب به قدر كفايته و كفاية عياله لا أكثر؛ لأنه لا نهاية له."

(کتاب الحج ،ج:2،ص:459،ط:سعید)

غنیۃ الناسک میں ہے:

"من جاء وقت خروج أهل بلده لأشهر الحج وقد استكمل سائر شرائط الوجوب و الأداء, وجب عليه الحج من عامه. ووجب أدائه بنفسه  فيلزمه  التأهب و الخروج معهم فلو لم يحج حتي مات فعليه الإيصاء به ... وكذا لو لم يحج حتي افتقر تقرر وجوبه دينا في ذمته بالإتفاق ولا يسقط عنه بالفقر سواء هلك المال أو استهلكه و وسعه أن يستقرض و يحج وان كان غير قادر علی قضائه."

( باب شرائط الحج، فصل فیما اذا وجد شرائط الوجوب و الأداء أو الوجوب فقط،ص:32،33 ط: ادارۃ القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں