بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی صورت میں خلع لینے کا حکم


سوال

لڑکی کا غیروں میں نکاح ہوا ہے،  لیکن لڑکے والوں نے لڑکے کی بیماری (کالا یرقان جو کہ چارسال سے ہےاور اب تقریباً لا علاج ہے) کو چھپایا ہے،  مزید یہ کہ گائناکالوجسٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر علیحدگی نہ ہوئی تو لڑکی کو بھی بیماری لگ سکتی ہے تو اس صورت میں خلع لی جا سکتی ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ تندرستی اور بیماری اللہ کی طرف سے ہے،  بیماری اللہ تعالی کی مرضی ومنشا ء  سے ہی لگتی ہے  اور اسی کے حکم کے تابع ہے،بیماری  کے  متعدی ہونے کا عقیدہ رکھنا درست نہیں ، اورنہ ہی  اس بنیاد پر نکاح کو فسخ کیا جاسکتا ہے، البتہ خلع   معتبر  ہونے کے  لیے میاں بیوی کی باہمی رضامندی ضروری ہے، یک طرفہ طور پر ہونے والا خلع شرعًا معتبر نہیں ہوتا،لہذا صورتِ  مسئولہ میں   اگر لڑکی    شوہر کے  ساتھ رہنے کے  لیے تیار نہیں ہے، تو  وہ مہر  کے عوض  شوہر سے  اس کی رضامندی کے ساتھ خلع لے سکتی ہے،باقی لڑکے والوں  کا بیماری کو چھپانا درست نہیں تھا۔

قرآن کریم میں ہے:

{فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلاَ تَعْتَدُوهَا وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ}[البقرۃ/229]

صحیح مسلم میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لا عدوى ولا صفر ولا هامة ». فقال أعرابى يا رسول الله فما بال الإبل تكون فى الرمل كأنها الظباء فيجىء البعير الأجرب فيدخل فيها فيجربها كلها قال « فمن أعدى الأول."

(باب لاعدوی ولاطیرۃ.../ج:7/ص:30/ط:دارالجیل)

الدرالمختار میں ہے:

"(ولا بأس به عند الحاجة ) للشقاق بعدم الوفاق ( بما يصلح للمهر ) بغير عكس."

(باب الخلع/ج:3/ص:441/ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں