بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیماری کی حالت میں قضاء شدہ نمازوں کے فدیہ کا حکم


سوال

میری والدہ تیرہ سال بیماررہی ،اس دوران انہوں نے اکثر نمازیں نہیں پڑھیں، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ نے انتقال سےپہلے اگر  اپنی فوت شدہ نمازوں کے فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی ہوتو ان کے ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ ادا کرنا ضروری ہےاور اگر فدیہ ایک تہائی حصہ سے زائد ہوتو تمام ورثاء کی اجازت سے یا کوئی ایک وارث اپنے حصے سے وہ فدیہ ادا کرسکتاہےاور اگر سائل کی والدہ نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو سائل اور دیگر ورثاء پر ان کی فوت شدہ نمازوں کافدیہ ادا کرنا لازم نہیں،تاہم اگر سائل یا کوئی اور وارث اپنی طرف سے ان کی نمازوں کا فدیہ ادا کردے تو یہ اس کا میت یعنی والدہ پر احسان ہوگا۔

سائل کی والدہ کی بیماری کے ان تیرہ سالوں کی  قضا شدہ نمازوں کی تعداد متعینہ طور پر معلوم ہو تواس کے مطابق فدیہ ادا کیا جائے گا ،اور اگرمتعینہ طور پر تعداد معلوم نہ ہو سکتی تو غالب گمان کےمطابق ان نمازوں کا حساب لگا کر ان سے کچھ زیادہ کا حساب رکھ کر   اس کے مطابق فدیہ ادا کیا جائے گا۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله).

(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد."

(كتاب الصلاة،باب قضاء الفوائت، 72/2، ط: سعيد ) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403102080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں