بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمار والد کی طرف سے حج کرانا


سوال

میں اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہوں، میرے والد صاحب بیماری کی وجہ سے خود حج کرنے سے قاصر ہیں، جس کی وجہ سے میں اپنے والد صاحب کی طرف سے حج بدل کرنا چاہتا ہوں، لیکن کچھ معاملات کی وجہ سے حج بدل کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کو بھیج رہا ہوں، جبکہ میرے بڑے بھائی صاحب جو  عمرہ کر چکے ہیں،  ان کی بھی یہی رائے ہے کہ چھوٹے بھائی کو حج بدل کے لیے بھیجا جائے، کیا والد صاحب کی جانب سے حج بدل کے لیے چھوٹے بھائی کو بھیجنے کا میرا فیصلہ کیا درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے والد صاحب اگر کسی ایسی بیماری  میں مبتلا ہے کہ جس سے صحتیابی کی امید باقی نہ رہی ہو، اور ان پر حج فرض بھی ہو، تو  اس صورت میں سائل والد کی اجازت سے  ان کی طرف سے  حج کرا سکتا ہے، پھر چاہے  تو خود اپنے والد کی طرف سے حج کرلے، یا اپنے چھوٹے بھائی کو والد کی طرف سے حج کرنے بھیج دے، بہر صورت والد کا حج ادا ہوجائے گا، البتہ اگر والد کسی عارضی مرض میں مبتلا ہے، اور صحتیابی کی امید ہو،  تو اس صورت میں والد کی طرف سے حج کرانا کافی نہ ہوگا، بلکہ صحتیابی کے بعد فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے والد صاحب کو بذاتِ خود جانا ضروری ہوگا۔

ملحوظ  رہے کہ  حج بدل  کرنے والا قابلِ اعتماد ، دین دار اور  حجِ بدل کے مسائل سے واقف ہونا چاہیے۔عالم ہو اور پہلے سے حج کیا ہوا ہو تو بہتر ہے، اور جس نے پہلے سے اپنا حج نہیں کیا ہے، اس کو حج بدل کے لیے بھیجنا مکروہ ہے، تاہم اگر کسی ایسے فرد کو  حج بدل کے لیے  بھیجا گیا جس نے پہلے حج نہ کیا ہو، تو  مکروہ ہوگا، اگرچہ حج بدل ادا ہوجائے گا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(العبادات ثلاثة أنواع) : مالية محضة كالزكاة وصدقة الفطر، وبدنية محضة كالصلاة والصوم، ومركبة منهما كالحج. والإنابة تجري في النوع الأول في حالتي الاختيار والاضطرار ولا تجري في النوع الثاني وتجري في النوع الثالث عند العجز، كذا في الكافي ولجواز النيابة في الحج شرائط. (منها) : أن يكون المحجوج عنه عاجزا عن الأداء بنفسه وله مال، فإن كان قادرا على الأداء بنفسه بأن كان صحيح البدن وله مال أو كان فقيرا صحيح البدن لا يجوز حج غيره عنه.

(ومنها) استدامة العجز من وقت الإحجاج إلى وقت الموت هكذا في البدائع حتى لو أحج عن نفسه وهو مريض يكون مراعى فإن مات أجزأه، وإن تعافى بطل وكذا لو أحج عن نفسه وهو محبوس، كذا في التبيين فإن أحج الرجل الصحيح عن نفسه رجلا ثم عجز لم تجزئه الحجة، كذا في السراج الوهاج وإنما شرط عجز المنوب للحج الفرض لا للنفل، كذا في الكنز ففي الحج النفل تجوز النيابة حالة القدرة؛ لأن باب النفل أوسع، كذا في السراج الوهاج (ومنها) الأمر بالحج فلا يجوز حج الغير عنه بغير أمره إلا الوارث يحج عن مورثه بغير أمره فإنه يجزيه (ومنها) نية المحجوج عنه عند الإحرام، والأفضل أن يقول بلسانه: لبيك عن فلان. (ومنها) أن يكون حج المأمور بمال المحجوج عنه فإن تطوع الحاج عنه بمال نفسه لم يجز عنه حتى يحج بماله وكذا إذا أوصى أن يحج بماله ومات فتطوع عنه وارثه بمال نفسه، كذا في البدائع."

(كتاب المناسك، الباب الرابع عشر في الحج عن الغير، ١ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)

البحر العميق میں ہے:

"ولا فرق بين أن يكون الحاج عن الغير قد حج عن نفسه أو كان ضرورة لم يحج عن نفسه، فإنه يجوز في الحالتين جميعا الا أن الأفضل أن يكون قد حج عن نفسه ... ولأن الأداء عن نفسه لم يجب في وقت معين فالوقت كما يصلح لحجه عن نفسه يصلح لحجه عن غيره، فإذا عينه لحجه عن غيره وقع عنه ... إلا أن الأفضل أن يكون قد حج عن نفسه؛ لأنه بالحج عن غيره يصير تاركا اسقاط الفرض عن نفسه، فيتمكن فى هذا الإحجاج ضرب كراهة."

 ( الباب الثامن عشر في الحج عن الغير، الفصل الأول في الحج العاجز، ٤ / ٢٢٦٣، ٢٢٦٧، ط: مؤسسة الريان المكتبة المكية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" والأفضل للإنسان إذا أراد أن يُحِج رجلاً عن نفسه أن يحج رجلاً قد حج عن نفسه، ومع هذا لو أحجّ رجلاً لم يحج عن نفسه حجة الإسلام يجوزعندنا، وسقط الحج عن الآمر، كذا في المحيط. و في الكرماني: الأفضل أن يكون عالماً بطريق الحج و أفعاله، و يكون حراً عاقلاً بالغاً، كذا في غاية السروجي شرح الهداية."

(كتاب المناسك، الباب الرابع عشر في الحج عن الغير، ١ / ٢٥٧، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506100153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں