بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمار کو زکات دینا


سوال

میرا بھائی  ایک سال سے بیمار ہے  اسے کینسر ہو گیا ہے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا اور بیوی ہے،بچے چھوٹے ہیں،گھر میں کوئی  کمانے والا نہیں، ایک دوست ہے جو ہر مہینے  ان کی مدد کے لیے پیسے دے رہا ہے ،  اور اس طرح اور بھی لوگ اپنی حیثیت سے مدد کر رہے ہیں۔

کسی نے زکات دینے کا کہا ہے،   تو آپ رہنمائی  فرمائیں کہ کیا میرے بھائی  زکات  لے سکتے ہیں ؟

ایک چھوٹا سا  گھر ان کا اپنا  ہے،   اور ایک تولہ سونا بھی  ہے ، جبکہ اور کوئی  ذرائع آمدنی نہیں،بس دوست ہر مہینے پیسے بھیجتا ہے اور ایک پورشن کا کرایہ آتا ہے،گھر ماں باپ کا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ استحقاق  زکات کے لیے محض بیمار ہونا کافی نہیں، کیوں کہ  مستحق زکات اس مسلمان شخص کو کہا جاتا ہے، جس  کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد اتنا سامان  موجود نہ ہو جس کی قیمت  ساڑھے باون تولہ  چاندی  کی قیمت کے برابر  یا اس سے زائد بنتی ہو،  یا وہ  نصاب زکات  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا  صرف چاندی ہو تو ساڑھے باون تولہ چاندی یا  سونا اور چاندی، یا سونا اور نقدی ، یا چاندی اور نقدی، یا سونا، چاندی، اور نقدی جن کی کل مالیت  ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت  کے برابر پہنچتی ہو ، یا چاندی کےنصاب کےمساوی سامان تجارت) کا مالک نہ ہو    اور وہ سید/ عباسی/ علوی/ جعفری   نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں   اگر سائل کا بھائی مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مستحق زکات قرار پاتا ہو تو اس صورت میں اسے زکات دینا جائز ہوگا، بصورتِ دیگر اس کے لیے  زکوة لینا جائز نہیں ہوگا ۔

نوٹ: واضح رہے کہ مندرجہ بالا تحریر سائل کے سوال کا جواب ہے، نہ ہی کسی کے بارے میں تصدیق ہے، اور نہ ہی سفارش۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي."

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101727

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں