بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیمہ پالیسی لینے کے بعد اس کو ختم کرنا


سوال

میں ایک سکول میں بطور مدرس اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں، کچھ عرصہ پہلے ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب جو اسٹیٹ لائف کی بیمہ پالیسییز کرتے تھے، نے مجھے بھی اپنی بیمہ پالیسی کروانے کا کہا، میں نے اس وقت انکار کر دیا، اب انہوں نے مجھے تنگ کرنا شروع کر دیا کہ آپ لازمی پالیسی کروائیں اور یہ اسلام میں جائز ہے وغیرہ وغیرہ، میں نے ان کے بلاوجہ کے تنگ کرنے کی وجہ سے پالیسی لینے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ پالیسی کی پہلی قسط انہوں نے ہی ادا کی جو میں نے بعد میں انہیں واپس کر دی۔ اب اس پالیسی کو چار سال ہو گئے ہیں۔ اگر بیمہ پالیسی کے بارے میں فتاویٰ کی بات کریں تو کچھ مفتیانِ کرام اسے جائز اور کچھ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں۔ میں شش وپنج میں ہوں کہ آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اگر ناجائز ہے تو کیا اصل رقم واپس ملنے تک پالیسی کو چلایا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

زمانے کی جدت  کے  ساتھ ساتھ  ہر چیز کے اندر جدت اور تبدیلی آرہی ہے،  اسی حقیقت کے پیشِ نظر  سودی کاروبار اور جوئے کی شکلوں میں بھی خاصی تبدیلی آگئی ہے، لیکن ان شکلوں کے بنیادی عناصر کو دیکھا جائے  تو ان کی اصلیت  کھل کر سامنے آجاتی ہے۔

مروجہ انشورنس یا بیمہ  کی تمام کمپنیوں کا معاملہ بھی  بینک کے کاروبار کی طرح ایک سودی معاملہ ہے،  دونوں میں صرف شکل و صورت کا فرق ہے، نیز انشورنس کے اندر  "سود" کے ساتھ "جوا" بھی پایا جاتا ہے، اور اسلام میں یہ دونوں حرام ہیں، ان کی حرمت قرآنِ کریم کی واضح اور قطعی نصوص سے ثابت ہے، کسی زمانے کی کوئی مصلحت اس حرام کو حلال نہیں کرسکتی۔

انشورنس میں   "سود" اس اعتبار سے ہے کہ حادثہ کی صورت میں جمع شدہ رقم سے زائد  رقم ملتی ہے اور زائد رقم سود ہے،  اور "جوا" اس اعتبار سے ہے کہ بعض صورتوں  میں اگر حادثہ وغیرہ نہ ہو تو  جمع شدہ رقم بھی واپس نہیں ملتی، انشورنس کمپنی اس رقم کی مالک بن جاتی ہے۔

اسی طرح اس میں  جہالت اور غرر ( دھوکا) بھی  پایا جاتا ہے،  اور جہالت اور غرر والے معاملہ کو شریعت نے  فاسد قرار دیا ہے، لہذا انشورنس کرنا  اور کرانا اور انشورنس کمپنی کا ممبر بننا شرعاً ناجائز  اور حرام ہے۔

اب اگر آپ نے اس کی ایک قسط جمع کروادی ہے اور اس کو ختم کروانا چاہتے ہیں تو جتنی رقم آپ نے جمع کروائی ہے اُسی قدر رقم لینا آپ کے لیے جائز ہے، اپنی اصل جمع کروائی ہوئی رقم واپس لے کر پالیسی ختم کر سکتے ہیں۔

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

شرح معانی الآثار میں ہے:

" عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»".

(2/313، کتاب الکراهة، ط: حقانيه)

صحیح مسلم  میں ہے:

"عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: «لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اٰكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ»، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»".

(3/1219، کتاب المساقات،دار احیاء التراث ، بیروت)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".

(4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط: مکتبہ رشد، ریاض)

فتاوی شامی میں ہے:

"وَسُمِّيَ الْقِمَارُ قِمَارًا؛ لِأَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُقَامِرَيْنِ مِمَّنْ يَجُوزُ أَنْ يَذْهَبَ مَالُهُ إلَى صَاحِبِهِ، وَيَجُوزُ أَنْ يَسْتَفِيدَ مَالَ صَاحِبِهِ وَهُوَ حَرَامٌ بِالنَّصِّ".

(6 / 403، کتاب الحظر والإباحة، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں