زید دودھ کا کام کرتاہے بطور پیشگی کے رقم گاۓ والے کو دےکر ایک کلو چا لیس روپےمیں خرید نا چاہتا ہے اور بغیر پیشگی کے پچاس روپے میں لینا چا ہتا ہے، کیا اسطرح جائز ہے ؟
دودھ کی قیمت پیشگی ادا کرنے کی صورت میں دودھ رائج قیمت سے کم قیمت پر خریدنا سود کی اقسام میں سے ایک قسم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ اس لیے کہ پیشگی ادا کی ہوئی قیمت درحقیقت دودھ والے کے ذمہ قرض ہوتی ہے ،اور قرض کے عوض میں کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا اس طرح عقد نہ کیا جائے۔
النتف فی الفتاوی میں ہے:
"أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک) الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه."
(انواع الربا،ج:1،ص:485،ط: دارالفرقان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412100375
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن