بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع عینہ کی صورتیں اور حکم


سوال

مرتضی نے یونس کو ایک گاڑی 12 لاکھ کی قسطوں پر فروخت کی، کیا مرتضی وہ گاڑی یونس سے 10 لاکھ نقد میں خرید سکتا ہے؟یا یونس وہ گاڑی کسی اور کو نقد بیچ سکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں یونس  یہ گاڑی مرتضی کے علاوہ کسی تیسری شخص کو  نقد یا ادھار  جس قیمت پر چاہے فروخت کر سکتا ہے،لیکن مرتضی کے ليے یہ گاڑی يونس سے    10 لاکھ نقد کے ساتھ خریدنا جائز نہیں، اسی طرح کسی تیسرے شخص کے واسطے سے بھی  مرتضی کایونس سے  گاڑی 10 لاکھ میں خریدنا جائز نہیں، مثلاً یونس کسی تیسری آدمی کو گاڑی  فروخت کرے اوروہ تیسرا شخص  مرتضی کو فروخت کرے، یہ سب بیع عینہ کی صورتیں ہیں،حدیث شریف میں اس بیع کی ممانعت وارد ہوئی ہے،اور اس پر وعید  آئی ہے، ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے، اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے، اور جہاد چھوڑ دوگے، تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف  لوٹ آؤ۔

لما في :"سنن أبي داود:

"عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إذا تبايعتم بالعينة، وأخذتم أذناب البقر، ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد، سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا ‌إلى ‌دينكم".

(باب النهي عن العينة،ج:5،ص:332،ط:دار الرسالة)

لما في :"حاشية ابن عابدين":

 

(قوله: في بيع العينة) اختلف المشايخ في تفسير العينة التي ورد النهي عنها. قال بعضهم: تفسيرها أن يأتي الرجل المحتاج إلى آخر ويستقرضه عشرة دراهم ولا يرغب المقرض في الإقراض طمعا في فضل لا يناله بالقرض فيقول لا أقرضك، ولكن أبيعك هذا الثوب إن شئت باثني عشر درهما وقيمته في السوق عشرة ليبيعه في السوق بعشرة فيرضى به المستقرض فيبيعه كذلك، فيحصل لرب الثوب درهما وللمشتري قرض عشرة. وقال بعضهم: هي أن يدخلا بينهما ثالثا فيبيع المقرض ثوبه من المستقرض باثني عشر درهما ويسلمه إليه ثم يبيعه المستقرض من الثالث بعشرة ويسلمه إليه ثم يبيعه الثالث من صاحبه وهو المقرض بعشرة ويسلمه إليه، ويأخذ منه العشرة ويدفعها للمستقرض فيحصل للمستقرض عشرة ولصاحب الثوب عليه اثنا عشر درهما، كذا في المحيط، وعن أبي يوسف: العينة جائزة مأجور من عمل بها، كذا في مختار الفتاوى هندية. وقال محمد: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا. وقال عليه الصلاة والسلام «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» قال في الفتح: ولا كراهة فيه إلا خلاف الأولى لما فيه من الإعراض عن مبرة القرض اهـ ط ملخصا

(كتاب البيوع، باب الصرف، ج:5،ص: 273،ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504102451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں