کیا ایک ایسا گھر جو بیچنے کے لیے بنایا ہو اور دو سال سے فروخت نہ ہوا ہو، کوئی منافع نہیں ہوا تو اس صورت میں زکوۃ ادا کرنی پڑے گی ؟
واضح رہے کہ جو گھر بیچنے کی نیت سے بنایا ہو تو وہ مالِ تجارت میں شامل ہے، پس تجارت کا مال فروخت ہو، یا نہ ہو، سال مکمل ہونے پر اس کی موجودہ مالیت کے اعتبار سے اس کی زکوٰة ادا کرنا لازم ہوتا ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ گھر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے منافع ہوا ہو یانہ ہوا ہو، بہر صورت سائل کی زکوٰة کا سال مکمل ہونے پر اس کی قیمت کا ڈھائی فیصد بطور زکوٰة ادا کرنالازم ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات."
(کتاب الزکاۃ،ج1،ص179،ط؛دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(أو نية التجارة) في العروض".
(جلد۲ ص:۲۶۷، ط: ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605100407
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن