بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیچنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر زکات کا حکم


سوال

میں نے دورانِ ملازمت ایک عدد پلاٹ اس نیت سے خریدا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اس پلاٹ کو بیچ کر اور مزید کچھ رقم ڈال کر ایک  تعمیر شدہ  مکان خرید لوں گا، لیکن رقم کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ایک اور صاحب کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا کہ اس پلاٹ پر مکان کی تعمیر شروع کی جائے اور کنسٹرکشن کے تمام اخراجات دوسرے صاحب کریں گے اور مکان کی تکمیل کے بعد انویسٹمنٹ کے تناسب سے قیمت فروخت کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے گا، دوسرے صاحب سے باقاعدہ معاہدہ کیا گیا جس میں میری طرف سے پلاٹ کی (معاہدہ کے وقت کی مارکیٹ مالیت) قیمت کو میری انویسٹمنٹ قرار دیا گیا۔

کیا مجھے اپنی انویسٹمنٹ کی رقم کی زکات دینا ہو گی جب کہ میرے پاس مکان کے فروخت ہونے کے بعد رقم آئے گی؟ نیز میرے پاس اپنا مکان نہیں ہے، کرائے کے مکان میں رہ رہا ہوں اور ارادہ ہے کہ مکان کے فروخت ہونے کے بعد جو رقم ملے گی اس سے کوئی مکان خرید لوں گا۔

جواب

زکات کے نصاب کا مالک شخص اگر کرایہ کے مکان میں رہتا ہو تب بھی اس پر زکات ادا کرنا لازم ہوتی ہے،صورتِ مسئولہ میں فروخت کرنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ پر گھر کی تعمیر ہورہی ہےاور   پلاٹ کی صورت میں آپ نے جو رقم انویسٹ کر رکھی ہے وہ مالِ تجارت شمار ہورہی ہے، لہٰذااس رقم کی زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہے۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(ومنها كون النصاب ناميا) حقيقة بالتوالد والتناسل والتجارة أو تقديرا بأن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو في يد نائبه وينقسم كل واحد منهما إلى قسمين خلقي، وفعلي هكذا في التبيين فالخلقي الذهب والفضة؛ لأنهما لا يصلحان للانتفاع بأعيانهما في دفع الحوائج الأصلية فتجب الزكاة فيهما نوى التجارة أو لم ينو أصلا أو نوى النفقة والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة، ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة ثم نية التجارة قد تكون صريحا وقد تكون دلالة فالصريح أن ينوي عند عقد التجارة أن يكون المملوك للتجارة سواء كان ذلك العقد شراء أو إجارة وسواء كان ذلك الثمن من النقود أو العروض.

وأما الدلالة فهي أن يشتري عينا من الأعيان بعروض التجارة أو يؤاجر داره التي للتجارة بعرض من العروض فتصير للتجارة، وإن لم ينو التجارة صريحا."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، ج:١، ص:١٧٤، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503102434

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں