بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیچنے کی نیت سے خریدے گئے آفس میں زکات کا حکم


سوال

ہم چار پارٹنرز نے ایک مشترکہ آفس خریدا ہے، جس کا سیل ایگریمنٹ اور قیمت بیچنے والے سے طے ہوچکی ہے، لیکن ابھی قبضہ نہیں ملا ہے، رمضان المبارک کی آمد ہے اور الحمد للہ ہم سب اپنی اپنی زکات کا حساب پہلی رمضان کو لگالیتے ہیں، برائے کرم ہماری رہنمائی فرمائیں کہ ہم پارٹنرز نے خریدتے وقت جتنے جتنے پیسے لگائے ہیں، کیا ہم لوگ اس اماؤنٹ پر زکات کا حساب لگائیں گے؟ایک اور بات کی وضاحت کردوں کہ یہ آفس خریدتے وقت ہم سب کا ہی یہ ارادہ تھا کہ جب بھی بہتر قیمت مل جائے گی تو ہم اس کو بیچ دیں گے اور یا اس کو کرایہ پر دے دیں گے۔

جواب

آفس خریدتے وقت چونکہ چاروں پارٹنرز کا ارادہ بہتر قیمت مل جانے کی صورت میں اسے بیچ دینے کا تھا اس  وجہ سے یہ آفس مال تجارت شمار ہوگا اور یکم رمضان کو دیگر اموال زکات کے ساتھ اس کی زکات بھی ادا کی جائے گی، نیز زکات ادا کرتے وقت اس کی جو مالیت ہوگی زکات اسی مالیت کے حساب سے دینی ہوگی۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث، الفصل الثاني في العروض، 1/ 179، ط: رشيدية)

وفيه أيضا:

"ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه سواء كان المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه."

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها، 1/ 175، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں