بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹ باکسنگ یا آٹو ٹیون والی نشید سننا


سوال

نشید سننا کیسا ہے؟ آج کل   یوٹیوب وغیرہ پر بہت سے نشید موجود ہیں، جن میں ایک مخصوص قسم کی آواز ہوتی ہے، اس طرح کے نشید سننا کیسا ہے؟ نیز  ذیل میں ایک نشید کا  لنک  ہے، جو محمد المقيط هے:

https://youtu.be/YiSQ_db-Dcw

جواب

واضح  رہے کہ  حمد اور نعت  وغیرہ پر مشتمل  نشید  سننا جائز ہے، بشرط یہ ہے کہ :

  1.  اس میں  موسیقی ،میوزک نہ ہو۔
  2.  شرکیہ کلمات نہ ہوں ۔
  3.   جان دار کی تصاویر نہ ہوں۔
  4.  نامحرم عورت کی آواز میں نہ ہو۔

 باقی  ضابطہ کے مطابق لنک میں ویڈیوز دیکھ کر جواب نہیں دیا جاتا، البتہ اصولی بات یہ ہے کہ  موسیقی  ایک ایسے فن کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے گانے میں سُر نکالنے کے احوال،  اور سُروں کی موزونیت کے احوال، اور آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے کے احوال، اور راگ کے احوال سے بحث کی جاتی ہے، مذکورہ تعریف کی رُو سے موسیقی (میوزک) کا اطلاق صرف آلاتِ موسیقی پر نہیں ہوتا بلکہ آوازوں کو ماہرانہ انداز میں ترتیب دینے(یعنی منہ سے موسیقی جیسے آوازیں نکالنے) کو بھی موسیقی کہاجاتا ہے، موجودہ زمانے میں موسیقی کی مختلف اقسام ماہرینِ موسقی کے یہاں متعارف ہیں، جن میں سے ایک قسم ’’بیٹ باکسنگ (beat boxing)‘‘  کے نام سے متعارف ہے، جس میں اگرچہ عام آلاتِ موسقی کا استعمال نہیں کیا جاتا ے، تاہم منہ کے ذریعہ ایسی آوازیں نکالی جاتی ہیں جو عموماً آلات کی وساطت سے نکالی جاتی ہے، یہ آوازیں بالکل  موسیقی کی آلات سے نکالی جانے والی آواز کے مشابہ ہوتی ہیں،  ماہرینِ فن نے اس نوع کو موسیقی کی اقسام میں بیان کیا ہے۔ لہذا اگر کسی نشید میں ”بیٹ باکسنگ “  کا استعمال ہوتو ایسا نشید سننا جائز  نہیں ہوگا، البتہ اگر کسی نشید میں ”بیٹ باکسنگ“ کا استعمال نہ ہو ، لیکن    ”ووکل افیکٹس“ سے آواز  کو بہتر  ، سُروں کو  اچھا  کیا جائے جسے ”آٹو ٹیون“ کہا جاتا ہے،جو آواز میں ایک قسم کا تصنع پیدا کرتا ہے، یہ موسیقی میں داخل نہیں ہے، اس لیے  اس کا استعمال ناجائز نہیں ہے۔

الموسوعة الفقهية   میں ہے:

"وأما علم الموسيقى: فهو علم رياضي يعرف منه أحوال النغم والإيقاعات، وكيفية تأليف اللحون، وإيجاد الآلات".

(30/ 293، المادة: علم، ط: اميرحمزه كتب خانه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اختلفوا في التغني المجرد قال بعضهم إنه حرام مطلقا والاستماع إليه معصية وهو اختيار شيخ الإسلام ولو سمع بغتة فلا إثم عليه ومنهم من قال لا بأس بأن يتغنى ليستفيد به نظم القوافي والفصاحة ومنهم من قال يجوز التغني لدفع الوحشة إذا كان وحده ولا يكون على سبيل اللهو وإليه مال شمس الأئمة السرخسي."

(5/ 351،کتاب الکراهية، الباب السابع عشر فی الغناء و اللهو و سائر المعاصی و الامر بالمعروف، ط: رشیدیة)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

 "«وعن نافع - رحمه اللَّه - قال: كنت مع ابن عمر في طريق، فسمع مزمارا، فوضع أصبعيه في أذنيه وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: يا نافع! هل تسمع شيئا؟ قلت: لا، فرفع أصبعيه من أذنيه، قال: كنت مع رسول اللَّه فسمع صوت يراع، فصنع مثل ما صنعت. قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيرا» . رواه أحمد، وأبو داود.

وفي فتاوى قاضي خان: أما استماع صوت الملاهي كالضرب بالقضيب ونحو ذلك حرام ومعصية لقوله عليه السلام: " «استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها من الكفر» " إنما قال ذلك على وجه التشديد وإن سمع بغتة فلا إثم عليه، ويجب عليه أن يجتهد كل الجهد حتى لا يسمع لما روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أدخل أصبعه في أذنيه."

(9/ 51، باب البيان والشعر، الفصل الثالث، ط: مكتبه حنيفيه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں