بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

Beard Transplant کا حکم


سوال

میں داڑھی رکھنا چاہتاہوں،  لیکن میری 28 سال کی عمر ہوچکی ہے ،لیکن اب تک مجھے داڑھی نہیں آئی ہے صرف ٹھوڑی کے نیچے کچھ حصہ ہے، لیکن وہ بھی نہیں بڑھ رہی ہے تو  میرا ارادہ ہوا کہ میں Beard Transplant کروالوں،تو کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اس کی وضاحت چاہتاہوں ، برائے کرم اس کا جواب مرحمت  فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ داڑھی تمام انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی سنت، مسلمانوں کا قومی شعار اور  مرد کی فطری اور طبعی چیزوں میں سے ہے، ا سی لیے رسول اللہ ﷺ نے اس شعار کو اپنانے کے لیے اپنی امت کو ہدایات دی ہیں اور اس کے رکھنے کا  حکم دیا ہے، اس لیے  جمہور علمائے امت کے نزدیک داڑھی رکھنا واجب اور اس کو کترواکریا منڈوا کر ایک مشت سےکم کرنا  حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔اور اس کا مرتکب فاسق اور گناہ گار ہے،نیز داڑھی اگر چہرے پر مقررہ عمر میں آجائے تو  مذکورہ حکم اس کے رکھنے کا ہے ،لیکن اگر کسی کی قدرتی طور پر داڑھی  سنت طریقہ پر نہ آئی ہو ،تو مذکورہ وعید اس کے لیے نہیں ہے ،اور نہ ہی وہ گناہ گار ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی داڑھی آئی  نہیں ،تو سائل معذور ہے ،کوئی گناہ کی بات  نہیں ،اور سائل کے لیے کوئی ضروری نہیں  کہ ( Beard Transplant)کے ذریعے چہرے پر داڑھی اگائے،بلکہ غیر ضروری تکلف ہے ،لیکن  اگر سائل ( Beard Transplant/ داڑھی کی پیوند کاری)کے ذریعے داڑھی کی جگہ مصنوعی بال لگوانا چاہ رہا ہے ،تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ بال دوسرے انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہِ کبیرہ ہے، اور انسانی بال لگوانے والوں  پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،اور  اگر بال اپنے  ہی جسم كے   کسی حصے کے ہوں  يا  مصنوعی بال  ہوں، كسی  دوسرے انسان یا خنزیر  کے نہ ہوں ،اور وہ اس طور پر لگوائے جائیں کہ جسم کا حصہ بن جائیں ، تو ان کا لگوانا جائز ہے۔

تاہم اگرمذكوره كاروائي ميں مشقت اٹھانی پڑتی ہے تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ بال لگوانا ایسی ضرورت نہیں ہے جس کے لیے آپریشن وغيره  کی مشقت برداشت کی جائے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو سقط سنه يكره أن يأخذ سن ميت فيشدها مكان الأولى بالإجماع وكذا يكره أن يعيد تلك ‌السن الساقطة مكانها عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله ولكن يأخذ سن شاة ذكية فيشدها مكانها وقال أبو يوسف - رحمه الله - لا بأس بسنه ويكره سن غيره قال ولا يشبه سنه سن ميت استحسن ذلك وبينهما عندي فصل ولكن لم يحضرني (ووجه)الفصل له من وجهين أحدهما أنسننفسه جزء منفصل للحال عنه لكنه يحتمل أن يصير متصلا في الثاني بأن يلتئم فيشتد،بنفسه فيعود إلى حالته الأولى وإعادة جزء منفصل إلى مكانه ليلتئم جائز كما إذا قطع شيء من عضوه فأعاده إلى مكانه فأما سن غيره فلا يحتمل ذلك.والثاني أن استعمال جزء منفصل عن غيره من بني آدم إهانة بذلك الغير والآدمي بجميع أجزائه مكرم ولا إهانة في استعمال جزء نفسه في الإعادة إلى مكانه."

(کتاب الاستحسان ،ج:5،ص:132،دارالکتب العلمیة)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"لما قال الكرخي: إذا سقطت ثنية رجل فإن أبا حنيفة يكره أن يعيدها، ويشدها بفضة أو ذهب، ويقول: هي كسن ميتة، ولكن يأخذ سن شاة ذكية يشد مكانها، وخالفه أبو يوسف، فقال: لا بأس به، ولايشبه سنّه سنّ ميتة، استحسن ذلك، وبينهما فرق عندي وإن لم يحضرني اهـ إتقاني. زاد في التتارخانية: قال بشر: قال أبو يوسف: سألت أبا حنيفة عن ذلك في مجلس آخر فلم ير بإعادتها بأسًا."

(کتاب الحظر والإ باحة، 6/ 362،ط:سعيد)

الھدایۃ میں ہے:

"ولا يجوز بيع شعر الخنزير" لأنه ‌نجس ‌العين فلا يجوز بيعه إهانة له."

(كتاب البيوع،باب بيع الفاسد،ج:3،ص:46،ط:دارإحياء التراث)

حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عمر  أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة". ( متفق علیه ، المشکاة : 381ط:قدیمی )
آپ ﷺنے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں  کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر  ( بھی لعنت فرمائی )۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"وفي اختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة التي تنتف الشعر من الوجه، والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.

(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير، كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة؛ لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر. (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً. والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها. والواشمة: التي تشم في الوجه والذراع، وهو أن تغرز الجلد بإبرة، ثم يحشى بكحل أو نيل فيزرق. والمستوشمة: التي يفعل بها ذلك بطلبها. والواشرة: التي تفلج أسنانها أي تحددها، وترقق أطرافها، تفعله العجوز تتشبه بالشواب. والمستوشرة: التي يفعل بها بأمرها اهـ اختيار، ومثله في نهاية ابن الأثير، وزاد أنه روي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولابأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرناً من قرونها بصوف أسود، وإنما الواصلة التي تكون بغياً في شبيهتها، فإذا أسنت وصلتها بالقيادة. والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز".

 (کتاب الحظر والإباحة،6/ 372،ط:سعيد)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں