بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع تام نہ ہونے کی صورت میں مشتری صرف ادا شدہ رقم کا مطالبہ کرسکتا ہے


سوال

مجھے میرے گھر والوں کی طرف سے وراثت میں رقم ملی تھی، میں نے اس رقم سے ایک زیر تعمیر عمارت میں پورشن بک کروایا، اس عمارت کی تین منزلیں بن چکی تھیں، میں نے پانچویں منزل والی جگہ بک کروائی تھی، یعنی ابھی وہاں کوئی تعمیر نہیں ہوئی تھی، آنے والے وقت میں جوپانچویں منزل بنتی، وہ مجھے ملتی، اس بکنگ کے بعد کافی عرصہ گزر گیا، جو وقت انہوں نے ہمیں دیا ،وہ بھی گزر گیا، لیکن انہوں نے مجھے کوئی گھر بنا کر نہیں دیا، اس گھر کی مالیت 15 لاکھ روپےطے  ہوئی تھی، ساڑھے سات لاکھ روپے میں نے نقد ادا کر دیے اور گھر پر قبضہ  ملنے کے بعد بقیہ رقم ادا کرنی تھی، لیکن مجھے گھر پر قرضہ نہیں ملا، بلڈر نے معاملہ کو کافی طویل کر دیا، مجھے ایک دوسرے مکان کی آفر کی، لیکن مجھے وہ سمجھ نہیں آیا،بالآخر میں نے خود ایک جگہ مکان بک کروایا، جس کی قیمت 16 لاکھ روپے تھی، چناں چہ میں نے سابقہ بلڈر سے کہا کہ مجھے میری رقم ادا کرو ،اس دوران وقت کافی گزر گیا تھا؛ اس لیے جگہ کی ویلیو بھی کافی بڑھ گئی تھی، لہٰذا جو جگہ میں نے سب سے پہلے بک کروائی تھی، بلڈر نے اس کی رقم میں ایک لاکھ بڑھا کر واپس کرنے کامعاہدہ کیا،کہ  میں ساڑھے سات لاکھ کے بجائےساڑھے آٹھ لاکھ روپے ادا کروں گا، اور اس نے مجھے دو چیک بھی بنوا کر دیے ،ایک چیک4 لاکھ روپے کا، اور دوسرا ساڑھے چار لاکھ روپے کا، ہم جب کیش کروانے گئے تو ایک چیک باؤنس ہو گیا، صرف چار لاکھ روپےمل سکے، پھر بڑی مشکل سے مزید رقم بھی میں نے حاصل کی، اب چھ لاکھ 40 ہزار روپے میں لے چکی ہوں ،اورمزید دو لاکھ دس ہزار باقی ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ میں نے اس بلڈر کو ساڑھے سات لاکھ روپے دیے تھے ،تاخیر ہونے کی وجہ سے اس نے ساڑھے آٹھ لاکھ روپےلوٹانے کا معاہدہ کیا تھا، اور چیک بھی بنا کر دیاتھا، لیکن اب وہ کہتا ہے کہ میں صرف ساڑھے سات لاکھ روپے ہی پورے کروں گا،یعنی مزید ایک لاکھ دس ہزار روپے دوں گا، تو ایسی صورت میں میرے لیےشرعاً کیا حکم ہے؟کیامیں ایک لاکھ دس ہزار واپس لوں یادولاکھ دس ہزار ؟

جواب

 صورت مسئولہ میں  آپ نے مذکورہ فلیٹ بک کراتے وقت  جو ساڑھےسات لاکھ روپے ادا کیے تھے،فلیٹ بننے سے قبل معاہدہ ختم کرنے کی صورت میں  آپ صرف اپنی اصل رقم یعنی ساڑھے سات لاکھ روپے ہی کی  حق دار ہیں،اور چوں کہ  چھ لاکھ چالیس ہزار روپے آپ وصول کرچکی ہیں؛ اس لیےآپ کو مزید ایک لاکھ دس ہزار روپے وصول کرنے کاحق ہے،جس کی ادائیگی بلڈر پر لازم ہے۔تاخیر کی بنیاد پر اضافی رقم کا مطالبہ کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"فعلى هذا إذا تقايل المتبايعان البيع بعد قبض ثمن المبيع فيجب رد مثل الثمن أو مقداره الذي اتفق عليه حين العقد.

ولو كان المقبوض أجود أو أدنى من ذلك ولا فائدة في أن يشترط حين الإقالة أن يدفع الثمن من جنس آخر أو ينقص للندامة أو لأسباب أخرى أو أن يزاد الثمن أو يرد بدل غيره أو يؤجل كما أن السكوت حين الإقالة عن الثمن لا يضر شيئا يعني أن كل ما يشترط في الإقالة من ذلك فهو باطل والإقالة صحيحة؛ لأن حقيقة الفسخ رفع الأول بحيث يكون كأن لم يكن فعلى ذلك تثبت الحال الأولى وثبوت هذه الحال يقتضي رجوع عين الثمن لمالكه الأول وعدم دخوله في ملك البائع رد المحتار.

مثال ذلك: إذا باع رجل من آخر مالا بخمسين ريالا وبعد أن قبض الثمن تقايلا البيع واتفقا على أن يدفع البائع للمشتري خمسة وأربعين ريالا عوضا عن الثمن الذي قبضه فالإقالة صحيحة وعلى البائع أن يرد الخمسين ريالا للمشتري دون زيادة ولا نقصان."

(البيوع، الفصل الرابع فی اقالة البيع، حكم الإقالة، ج:1، ص:172، ط: دار الجيل)

فتاوی ٰشامی میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(كتاب الحدود، ج:4، ص:61، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں