بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیعانہ ضبط کرنا


سوال

ہم نے اس سال باغ ایک پارٹی کو 46لاکھ کا بیچا جس میں انہوں نے ہاتھ لگانے سے پہلے 6لاکھ بیعانہ کا دیا ،اس میں سے انہوں نے کچھ باغ کا حصہ بیچا بھی تھا،  لیکن جب ان کو بعد میں نقصان نظر آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم 6 لاکھ چھوڑتے ہیں، آپ اپنا باغ کسی اور کو بیچ دیں تو کیا یہ 6 لاکھ ہمارے لیے درست ہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کا اس رقم کو بیعانہ یا جرمانہ کے طور پر  رکھنا جائز نہیں ہے البتہ اگر  وہ پارٹی یہ کہہ دے کہ ہم پہلے والی بیع کو  فسخ  یعنی ختم کرتے ہیں اور یہ رقم آپ کوباغ كے  اس حصہ کے عوض دیتے ہیں جو ہم نے فروخت کیا ہے تو پھر آپ کے لیے  اس رقم کا رکھنا اور استعمال کرنا جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لايجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

( كتاب الحدود‌‌، باب التعزير، ج-4،ص-61، ط: الحلبي دار الفكر - بيروت)

بداية المجتهدميں هے:

"ومن هذا الباب بيع ‌العربان: فجمهور علماء الأمصار على أنه غير جائز; وحكي عن قوم من التابعين أنهم أجازوه، منهم مجاهد، وابن سيرين، ونافع بن الحارث، وزيد بن أسلموصورته: أن يشتري الرجل شيئا فيدفع إلى المبتاع من ثمن ذلك المبيع شيئا على أنه إن نفذ البيع بينهما كان ذلك المدفوع من ثمن السلعة، وإن لم ينفذ ترك المشتري بذلك الجزء من الثمن عند البائع ولم يطالبه به; و إنما صار الجمهور إلى منعه لأنه من باب الغرر و المخاطرة، و أكل المال بغير عوض، و كان زيد يقول: أجازه رسول الله صلى الله عليه و سلم. و قال أهل الحديث: ذلك غير معروف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم."

(كتاب البيوع،الباب الرابع في‌‌ بيوع الشروط والثنيا،ج:3،ص: 177 ،الناشر: دار الحديث - القاهرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508101132

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں