بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیعت کا حکم


سوال

بڑے حضرات کہتے ہیں کہ پیر اور ولی کے بغیر زندگی نامکمل ہے ،  کسی نہ کسی کے ہاتھ پہ بیعت کرنا بہت ضروری ہے ،تو اگر کوئی ایسا شخص( جس پر بندہ دلی اور ذہنی طور پر مطمئن  ہو ) زندگی میں ملے ہی نہیں  ، تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی پیر یا ولی کے ہاتھ پر بیعت کرنامستحب ہے،  اور دین کے راستہ پر چلنا اور نفس کا تزکیہ اور اصلاح کرانا فرض ہے، البتہ تجربہ سے یہ کلیاً یا اکثریاً مشاہدہ ہوگیا ہے کہ جو درجہ عمل اور اصلاح کا مطلوب ہے وہ  کسی کامل بزرگ کے  اتباع و تربیت کے بغیراطمینان کے ساتھ  عادۃً حاصل نہیں ہوتا، اس لیے اکابرین کسی کامل بزرگ کے ساتھ بیعت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، تاہم  اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریق متعارف کسی سے بیعت نہ ہو، اور خود علمِ دین حاصل کرکے یا علماء سے تحقیق کرکے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے تو وہ بھی درست ہے۔ 

القول الجمیل میں ہے:

"إعلم أن البيعة سنة وليست بواجبة...ولم يدل دليل علي تاثيم تاركها، ولم ينكر أحد من الأئمة  علي أنها ليست بواجبة ."

(الفصل الثاني، ص:18، ط:سعيد)

إعلاء السنن میں ہے:

"ولا يتيسر ذالك إلا بالمجاهدة علي يد شيخ كامل قد جاهد نفسه وخالف هواه وتخلي عن الأخلاق الذميمة ...ومن ظن من نفسه أنه يظفر بذالك بمجرد العلم ودرس الكتب ، فقد ضل ضلالاً بعيداً، فكما أن العلم بالتعلم من العلماء فكذالك الخلق بالتخلق علي يد العرفاء."

(كتاب الأدب والتصوف والإحسان، باب الترهيب عن مساوئ الأخلاق والترغيب في مكارم الأخلاق، ج:18، ص:454، ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي)

وفيه أيضاً:

"وبالجملة فالتصوف عبارة عن عمارة الظاهر والباطن ، أما عمارة الظاهر فبالأعمال الصالحة ، وأما عمارة الباطن فبذكر الله وترك الركون إلي ما سواه ... وكان يتيسر ذالك للسلف بمجرد الصحة."

(كتاب الأدب والتصوف والإحسان، ج:18، ص:449، ط:إدارة القرآن والعلوم الإسلامية كراتشي)

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

"سوال:عالم یا فقیر سے مرید ہونا کوئی ضروری بات ہے یا مستحب ہے؟

جواب: مرید ہونا مستحب ہے واجب نہیں ہے۔"

(باب اخلاق اور تصوف کے بیان میں، مرید ہونا ضروری ہے یا مستحب؟ ص:79، ط:عالمی مجلس تحفظ اسلام)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال: پیر کامل سے مرید ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ قران و حدیث کی روشنی میں صحیح مسئلہ سے مطلع فرمائیں ۔

جواب:عقائد حسنہ ،اخلاق فاضلہ، اعمال صالحہ کی تحصیل ہر شخص پر واجب ہے ،خواہ اساتذہ سے ہو ،خوا ہ کتابوں سے پڑھ کر یا بزرگان ِدین کی صحبت میں رہ کر ہو،  یا خواہ  بذریعہ مطالعہ ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں جو حضرات بحالت ایمان حاضر ہوئے تو برکتِ صحبت سے ان کو یہ چیز حاصل ہو گئی،  ان کے باطن میں ایک نور پیدا ہو گیا جس کے ذریعے سے وہ حضرات حق باطل صحیح غلط میں بے تکلف فرق کر لیتے تھے, اتنا تقوی قلب میں پیدا ہو جاتا تھا کہ عمومی حالات میں بھی نفس و شیطان پر قابو رکھتے تھے۔۔۔۔ پھر بعدِ زمانہ اور تغیرِ ماحول کی بنا ءپر اس مقصد کی تحصیل کے لیے مجاہدہ و ریاضت کی ضرورت پیش آئی،  جن حضرات نے اس نسبت کو حاصل کیا اب بھی ان کی صحبت سے بہت نفع پہنچتا ہے، اور اب اس دور میں عمومی استعداد اتنی ضعیف ہو چکی ہے کہ بغیر پیر کا مل سے رابطہ کیے اور بغیر ان کی ہدایت پر عمل کیے اخلاق رذیلہ زائل نہیں ہوتے، اور اخلاق فاضلہ حاصل نہیں ہوتے، تا ہم آج بھی کوئی سلیم الفطرۃ( جو لاکھوں میں سے ایک ہوگا) اپنے عقائد ،اخلاق ،اعمال ،کو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق خود ہی بنا لے تو اس کو بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ۔"

(کتاب السلوک والاِحسان، بیعت کا بیان ، ج:4، ص:415، ط:اِدارۃ الفاروق)

فقط واللہ اِعلم


فتوی نمبر : 144503100459

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں