بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بے وضوء نماز پڑھادینے کے بعد نمازیوں کا اطلاع دینا ممکن نہ ہو تو کیا کیا جائے؟


سوال

زید نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے بغیر وضو کے نماز پڑھائی تو اب اُن میں کُچھ لوگ مسافر تھے اور وہ لوگ بھی تھےجو آج دنیا میں نہیں رہے تو اب زید اس بات کا اعادہ کیسے کرے؟

جواب

واضح رہےکہ نماز کے لیےطہارت اور پاکیزگی کا ہونا بنیادی شرائط میں سے ہےاور جان بوجھ کر بغیر وضوء کے نماز پرھنا کبیرہ گناہ ہےحتی کہ بعضِ مشائخ نے عمداً بغیر وضو کےنماز پڑھنے والے کو کافر قرار دیا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب زید نے نہ صرف خود جان بوجھ کربغیر وضو کے نماز پڑھی بلکہ اسی حالت میں لوگوں کی امامت بھی کی تو اس نے لوگوں کی نماز کا ذمہ بھی اپنے سر لے لیا،اب اس پر لازم ہے  کہ خود اعادہ کرنے کے ساتھ ساتھ جس جس تک بات پہنچانا ممکن ہو،ان تک بات پہنچائے،جن لوگوں تک بات پہنچ جائے گی ان پر اعادہ لازم ہوگا، اور جن جن تک بات پہنچانا ممکن نہیں ہےان پر نماز کا اعادہ لازم بھی نہیں ہے،البتہ اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنی اور ان تمام مقتدیوں کی طرف سےصدقِ دل کے ساتھ خوب استغفار کرے۔

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"والصلاة تالية للإيمان والطهارة مفتاحها بالنص، وشرط بها مختص لازم لها في كل الأركان...قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب كما في الخانية.

(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل. اهـ.أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الإستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرا عند الكل تأمل."

(ص:٨١،ج:١،کتاب الطهارة ،ط:ایج ایم سعید)

وفيه ايضا:

"(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحة وفسادا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط...(بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح)لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقا لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى.

(قوله بالقدر الممكن) متعلق بإخبار، وقوله على الأصح متعلق بيلزم...(قوله لكونه عن خطأ معفو عنه) أي لأنه لم يتعمد ذلك فصلاته غير صحيحة ويلزمه فعلها ثانيا لعلمه بالمفسد.وأما صلاتهم فإنها وإن لم تصح أيضا، لكن لا يلزمهم إعادتها لعدم علمهم ولا يلزمه إخبارهم لعدم تعمده."

(ص:٥٩٢،ج:١،کتاب الصلوة،باب الإمامة ،ط:ایج ایم سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں