بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بے وضوء نماز اد اکرنے کی صورت میں مقتدیوں کو اطلاع کرنے کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص بے وضو حالت میں اتنی نمازیں پڑھائے کہ اس کا پھر ادا کرنا مشکل ہو، وہ  امام بھی ہو اور  لوگوں کو یہ بات بتانا کہ  دوبارہ نمازیں  ادا کریں  مشکل کام ہو  اور  لوگ بھی مختلف جگہوں سے ہوں  تو اس حالت میں پھر کیا کرنا چاہیے؟کیا  شرم کی وجہ سے  لوگوں کو نہ بتانے کی گنجائش ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ امام پر حتی الامکان مقتدیوں کو اس بات کی اطلاع کرنا ضروری ہے کہ کتنے دن کی نمازیں بے وضوء پڑھائی ہیں تاکہ مقتدی ان دنوں کی نماز وں کی قضاء کرلیں ۔ ہاں جن مقتدیوں کو اطلاع دینا امام کے لیے ممکن نہ ہو یا جن کی  مقتدیوں کی تعیین نہ ہو تو ان کو خبر پہنچانے کا امام   مکلف نہیں ہے، باقی جن لوگوں تک رسائی ممکن ہے ان کو مسجد میں اعلان کر کے یا کسی ذریعہ سے خبر دے دے ، اس معاملہ میں امام کو شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر اطلاع کرنی چاہیے۔

نیز اگر بغیر وضوء کے نماز امام نے عمداً (جان بوجھ کر)  پڑھائی تھی تو اس عمل پر امام سخت گناہ گار ہوگا، اس عمل سے توبہ کرنی چاہیے، اور اگر بے وضو نماز پڑھانے کو جائز سمجھ کر نماز پڑھایا ہے تو تجدید ایمان کرنا بھی ضروری ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدید نکاح کرنا بھی ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحة وفسادا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلا، نعم وإلا ندبت، وقيل لا لفسقه باعترافه؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقا لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى»

(قوله بالقدر الممكن) متعلق بإخبار، وقوله على الأصح متعلق بيلزم (قوله لو معينين) أي معلومين. وقال ح: وإن تعين بعضهم لزمه إخباره (قوله وإلا) أي وإن لم يكونوا معينين كلهم أو بعضهم لا يلزمه (قوله وصحح في مجمع الفتاوى) وكذا صححه الزاهدي في القنية والحاوي وقال وإليه أشار أبو يوسف (قوله مطلقا) أي سواء كان الفساد مختلفا فيه أو متفقا عليه، كما في القنية والحاوي فافهم (قوله لكونه عن خطأ معفو عنه) أي لأنه لم يتعمد ذلك فصلاته غير صحيحة ويلزمه فعلها ثانيا لعلمه بالمفسد.

وأما صلاتهم فإنها وإن لم تصح أيضا، لكن لا يلزمهم إعادتها لعدم علمهم ولا يلزمه إخبارهم لعدم تعمده فافهم."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامۃ، ج نمبر ۱، ص نمبر ۵۹۱، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں