بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بے نمازی کے ساتھ کھانے پینے اور تعلق رکھنے کا حکم


سوال

کیا بے نمازی کے ساتھ تعلق رکھ سکتے ہیں؟، دو ٹوک الفاظ میں بیان کیجئے  کیا بے نمازی کے ساتھ تعلق ،کھانا پینا، گپ شپ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ نماز چھوڑنا اگر چہ کبیرہ گناہ ہےاور بے نمازی فاسق اور گناہ گار ہے،  لیکن ترکِ صلاۃ کی وجہ سے کوئی مسلمان دائرۂ  اسلام سے خارج نہیں ہوتا ،لہٰذا مسلمانوں والے سارے تعلقات جیسے کھانا پینا ،میل جول اور تعلق رکھنا بےنمازی کےساتھ   بھی  جائز ہے۔ البتہ اگربے نمازی کے ساتھ تعلق رکھنے میں غالب گمان یہ ہو کہ وہ نمازی بن جائےگا تو اس کے ساتھ تعلق رکھنا بہتر ہے ،اور اگر اس کے ساتھ تعلق ختم کرنے میں بے نمازی کے پابندِ صلاۃ ہونے کا ظنِ غالب ہو تو اس کے ساتھ تعلقات ختم کرنا بھی جائز ہے۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"من تركها تكاسلا وتهاونا فهو فاسق عاص."

( القسم الاول: العبادات، الفصل الاول، 659/1، ط : دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اختلفوا في عيادة الفاسق والأصح أنه لا بأس بها."

( کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع عشر،348/5، ط: مکتبہ رشیدیہ)

مرقاۃ المفاتیح  میں ہے:

"قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب علي أخيه ثلاث ليال لقلته، و لا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالي، فيجوز فوق ذلك ، و في حاشية السيوطي علي المؤطا: قال ابن عبدالبر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك و رفيقيه حيث أمر صلي الله عليه و سلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة علي ثلاث إلي أن بلغ خمسين يوما…قال:وأجمع العلماءعلى أن من خاف من مكالمة أحد و صلته ما يفسد عليه دينه أو يدخل مضرة في دنياه يجوزله مجانبته و بعده۔۔۔ قلت:ويمكن أن يقال:الهجرة الممنوعة إنما تكون مع العداوة و الشحناء كما يدل عليه الحديث الذي يليه،فغيرها إما مباح أو خلاف الأولى."

(  کتاب الآداب،  758/8، ط: المکتبۃ التجاریۃ مکۃ المکرمۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں