بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بے نمازی اور قرآن نہ جاننے والی بیوی کو طلاق دینے کا حکم


سوال

میری شادی کو 5 سال ہو گئے ہیں۔ میرا 10 مہینہ کا ایک بیٹا ہے میری بیوی کو نہ نماز پڑھنا آتا ہے، نہ اس نے قرآن شریف پڑھا ہے۔ میں اس کو نماز کا قرآن پڑھنے کا بولتا ہوں تو آگے سے لڑتی ہے اور اس کے گھر والوں سے بھی اس کی شکایت کرتا ہوں  تو وہ بھی مجھ سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ گندی گندی گالیا دیتےہیں ۔ جب میں ایسا کرتا ہوں تو  قتل کی دھمکی دیتے ہیں اور اس کے گھر والے بھی کہتےہیں  فارغ کردو اور میری بیوی خود بھی یہی بولتی ہے،  لیکن میرے ابو نے نکاح نامہ میں ایک کمرے کا مکان اور پچاس ہزار روپے لکھے ہیں۔ میں اس سے تنگ ہوں،  نہ مکان دے سکتا ہوں  نہ بچہ۔ میں ایک مزدور ہوں مجھے کوئی حل بتائیں ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کو  چاہیے کہ پیار و محبت اور حکمت کے ساتھ بیوی کو نماز ادا کرنے اور قرآن پڑھنے کی ترغیب دے، زور زبردستی نہ کرے گو کہ سائل کو اس معاملہ میں زور زبردستی کرنے کی بھی شرعًا  اجازت ہے، لیکن سائل کے بیان کردہ حالات میں زور  زبردستی  معاملہ کو درست کرنے کے  بجائے مزید خراب کر دے گی؛  لہذا سائل نرمی کے ساتھ بیوی کو نماز پر اور قرآن سیکھنے پر آمادہ کرے۔گھر کی وہ سمجھ دار عورتیں جن سے بیوی کا تعلق ہو ان کے ذریعہ بیوی کو نماز اور قرآن کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس کے ساتھ بیوی کے لیے سچے دل سے خوب دعا مانگے  کہ اللہ اس کے دل کو پلٹ دیں۔اگر یہ سب چیزیں فائدہ مند ثابت نہیں ہوتیں تو اس حالت میں  شرعًا سائل کے لیے جائز ہے کہ اس عورت کو طلاق دے دے۔

طلاق دینے کی صورت میں  اگر  مہر میں خاص متعین کمرہ اور نقد پچاس ہزار روپے مقرر ہوئے تھے تو  اس کا ادا کرنا لازم ہوگا۔ نیز  بچے  کا حکم  یہ ہے کہ سات سال کی عمر تک بیٹا  ماں کے پاس رہے گا گو  کہ ماں نماز چھوڑتی ہے اور قرآن پڑھنا نہیں جانتی اور خرچہ باپ کے ذمہ ہوگا،  پھر سات سال کی عمر کے بعد  بچہ سائل  کے پاس آجائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(تثبت للأم) النسبية (ولو) كتابية، أو مجوسية أو (بعد الفرقة) (إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا.قال المصنف: والذي يظهر العمل بإطلاقهم كما هو مذهب الشافعي أن الفاسقة بترك الصلاة لا حضانة لها. وفي القنية: الأم أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك.

(قوله: كما في البحر والنهر بحثا) قال في البحر: وينبغي أن يكون المراد بالفسق في كلامهم هنا الزنا المقتضي لاشتغال الأم عن الولد - بالخروج من المنزل ونحوه - لا مطلقه الصادق بترك الصلاة، لما سيأتي أن الذمية أحق بولدها المسلم ما لم يعقل الأديان، فالفاسقة المسلمة أولى.قال في النهر: وأقول في قصره على الزنا قصور، إذ لو كانت سارقة، أو مغنية، أو نائحة فالحكم كذلك، وعلى هذا فالمراد فسق يضيع الولد به. اهـ

(قوله: وفي القنية إلخ) فيه رد على ما قاله المصنف، والعجب أن المصنف نقله عقب عبارته السابقة. (قوله: ما لم يعقل ذلك) أي ما لم يعقل الولد حالها، وحينئذ يجب تقييد الفجور بأن لا يلزم منه ضياع الولد كما لا يخفى. .... والحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل فينزع منها كالكتابية."

(کتاب الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۵۵،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) الحاضنة (الذمية) ولو مجوسية (كمسلمة ما لم يعقل دينا) ينبغي تقديره بسبع سنين لصحة إسلامه حينئذ نهر (أو) إلى أن (يخاف أن يألف الكفر) فينزع منها وإن لم يعقل دينا بحر.

(قوله: بسبع سنين) فائدة هذا تظهر في الأنثى لأن الذكر تنتهي حضانته بالسبع حموي."

(کتاب الطلاق ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۶۴،ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وإن كان المسمى غير عين فالمسمى لا يخلو إما أن يكون مجهول الجنس والنوع والقدر والصفة، وإما أن يكون معلوم الجنس والنوع والقدر والصفة، فإن كان مجهولا كالحيوان والدابة والثوب والدار بأن تزوج امرأة على حيوان أو دابة أو ثوب أو دار ولم يعين لم تصح التسمية ....وكذا الدار؛ لأنها تختلف في الصغر والكبر والهيئة والتقطيع، وتختلف قيمتها باختلاف البلاد والمحال والسكك اختلافا فاحشا فتفاحشت الجهالة فالتحقت بجهالة الجنس."

(کتاب النکاح،فصل أن لا يكون مجهولا جهالة تزيد على جهالة مهر المثل ، ج نمبر ۲ ص نمبر ۲۸۲، دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو تزوج على بيت ينظر إن كان الرجل بدويا فلها بيت شعر، وإن كان الرجل بلديا قال محمد - رحمه الله تعالى - لها بيت وسط أراد به أثاث البيت إلا أنه كنى عن الأثاث بالبيت لاتصال بينهما قالوا وهذا في عرفهم فأما في عرفنا فإنه لا ينصرف إلى المتاع؛ لأنه لا يراد به المتاع في عرفنا وإنما يراد به البيت المبني من المدر وإنه لا يصلح مهرا إذا لم يكن عينا، كذا في محيط السرخسي ويجب مهر المثل كما لو تزوجها على دار بغير عينها يجب مهر المثل ولو تزوجها على بيت بعينه فلها هكذا في شرح الطحاوي."

(کتاب الطلاق باب المہر،فصل خامس ج نمبر ۱ ص نمبر ۳۱۰،دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا تزوجها على هذا العبد وهو ملك الغير أو على هذه الدار وهي ملك الغير فالنكاح جائز والتسمية صحيحة فبعد ذلك ينظر إن أجاز صاحب الدار وصاحب العبد ذلك فلها عين المسمى، وإن لم يجز المستحق لا يبطل النكاح ولا التسمية حتى لا يجب مهر المثل وإنما تجب قيمة المسمى كذا في المحيط."

(کتاب الطلاق باب المہر،فصل اول ج نمبر ۱ ص نمبر ۳۰۳،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں