بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو الحجة 1446ھ 14 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

بے ایمانی اور دھوکہ دہی کرنے والے دکان دار کے پاس ملازمت کرنے کا حکم


سوال

اگر دکان دار دونمبری کرتا ہے کام میں تو کیا کام کرنے والے بھی گناہ گار ہوں گے؟

جواب

اگر کوئی دکان دار اپنے کام میں دو نمبری یعنی بے ایمانی اور دھوکہ دہی سے کام لیتا ہے تو اس کے پاس کام کرنے والے ملازمین کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ دکان دار کے کہنے پر اور ملازمت کی مجبوری کی بناء پر ملازمین کے لیے بے ایمانی اور دھوکہ دہی کے عمل میں حصہ لینا جائز نہیں ہے، ناجائز کام میں دکان دار کی مدد کرنے والے ملازمین گناہ گار ہوں گے، نیز  وہ ملازمین جن کی   ذمہ داری  ہی بے ایمانی اور دھوکہ دہی کرنا ہو   ان کی تنخواہ حرام ہے اور واجب التصدق ہے جب کہ دیگر ملازمین جو بے ایمانی اور دھوکہ دہی  کے عمل میں شریک نہیں تو اگر دکان دار کی غالب آمدن اس دھوکے کے مال سے ہوتی ہو تو ان دیگر ملازمین کی تنخواہ مکروہ ہوگی  اور اگر غالب آمدن حلال ہوتو ان دیگر ملازمین کی تنخواہ جائز ہوگی ۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

"وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى  الْإِثْمِ وَالْعُدْوٰنِۚ وَٱتَّقُوْا اللّٰهَۖ إِنَّ اللّٰهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ." (سورةالمائدۃ: 2)

ترجمہ:"اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی اعانت مت کرو اور اللہ سے ڈرا کرو بلاشبہ اللہ سخت سزا دینے والے ہیں۔"

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"(وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإثْمِ وَالْعُدْوَانِ)يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل."

(سورةالمائدۃ،12/2،ط: دار طیبة)

شرح المجلۃ میں ہے :

"‌والمعقود ‌عليه ‌هو ‌العمل، ‌أو ‌أثره ‌على ‌ما ‌بينا؛ ‌فلا ‌بد ‌من ‌العمل. فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة."

(الكتاب الثاني الإجارة،الباب الأول،‌(المادة 424) الأجير المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل،ج1،ص457،ط:دار الجیل)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"ولا تجوز ‌الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو؛ لأنه معصية والاستئجار ‌على ‌المعاصي ‌باطل فإن بعقد الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا."

(كتاب الإجارات،باب الإجارة الفاسدة،ج16،ص38،ط:دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الأشباه الحرمة تنتقل مع العلم ... وفي الذخيرة: سئل أبو جعفر عمن اكتسب ماله من أمر السلطان والغرامات المحرمة، وغير ذلك هل يحل لمن عرف ذلك أن يأكل من طعامه؟ قال: أحب إلي في دينه أن لا يأكل ويسعه حكما إن لم يكن غصبا أو رشوة اهـ وفي الخانية: امرأة زوجها في أرض الجور إذا أكلت من طعامه، ولم يكن عينه غصبا أو اشترى طعاما أو كسوة من مال أصله ليس بطيب فهي في سعة من ذلك والإثم على الزوج."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ج6،ص385-386،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611100064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں