والدہ کی وقتی بیماری کی وجہ سے کیا والد اپنی ۳ ماہ کی بیٹی کو استنجاء اور غسل کروا سکتے ہیں ؟ کس عمر تک والد کا بیٹی کو غسل کرواناجائزہے ؟
واضح رہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے کوئی ستر نہیں ہےچاہے لڑکا ہو یا لڑکی ہو اس میں کوئی فرق نہیں ،کم عمر بچے سے مراد جو کہ چار سال یا اس سے کم سن کا ہوتاہے ،چار سال کے بعد جب تک کہ برا خیال پیدا نہ ہو تا ہو تب تک بچے کا ستر اس کے آگے اور پیچھے کی شرمگاہ ہے ،لیکن اگر وہ اس حال کو پہنچ جائے کہ اس کے دیکھنے سے براخیا ل پیدا ہوتا ہے تو اس کا ستر بالغ مرد وعورت کی مانند ہے ۔
صورت مسئولہ میں باپ اپنی تین ماہ کی بچی کو غسل اور استنجاء کرواسکتا ہے ، اور اسی طرح چار سال کی عمر تک باپ غسل اور استنجاء کرواسکتا ہے ،اس كے بعد بھی اگر مجبوری میں غسل یا استنجاءکروانے کی ضرورت ہوتو نوسال کی عمر تک کرواسکتا ہے جبکہ دیکھنے سے کسی قسم کا براخیا ل پیدا نہ ہو ، اگر دیکھنے سے برا خیا ل پیدا ہو تو پھر غسل اور استنجاء کروانااور بچی کاستردیکھنا جائز نہیں ہے ۔
الفقہ الاسلامی وأدلته ميں هے :
"لا عورة للصغير جداً وهو من عُمره أربع سنين فأقل، فيباح النظر إلى بدنه ومسه. ثم ما دام لم يشته فعورته القُبُل والدبر، ثم تغلظ عورته إلى عشر سنين، أي تعتبر عورته: الدبر وما حوله من الأليتين والقبل وما حوله. وبعد العاشرة تعتبر عورته كعورة البالغ في الصلاة وخارجها، سواء أكان ذكراً أم أنثى."
(کتاب الصلوۃ ،باب شروط الصلوۃ،647/1،رشیدیہ کوئٹہ،لاہور)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144402101030
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن