بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کا پڑھائی سے تھک کر کچھ دیرکےلیے لڈو کھیلنا


سوال

گھر میں بچے پڑھائی وغیرہ کے بعد تھوڑی دیر کے لیے لڈو گیم کھیلتے ہیں ، برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کیا لڈو گیم کھیلنا جائز ہے ؟

جواب

 واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو ، جیسے: تیراکی، تیراندازی، گھڑسواری اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی کی ہے جن میں لگنے سے وقت کا ضیاع ہوتا ہو اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے جن کی وجہ سے گناہوں کا ارتکاب لازم آتا ہو یا وہ کھیل فساق و فجار کے کھیل ہوں، جیسے: شطرنج وغیرہ۔

نیز لڈو یا اس طرح کے کھیلوں میں عموماً انہماک اس درجہ کا ہوتا ہے کہ نماز و دیگر امور میں غفلت ہوجاتی ہے، اور اس بے مقصد کھیل میں قیمتی وقت کا ضیاع ہوتا ہی ہے، نیز ایسے کھیلوں میں انہماک کی وجہ سے دل ودماغ اکثر اوقات انہی چیزوں کی طرف متوجہ رہتاہے اور خدا کی یاد سے غافل رہتاہے، لایعنی امور میں ایسا انہماک شرعاً ناپسندیدہ ہے، مسلمان کا دل ودماغ ہر وقت یادِ خدا اور آخرت کی تیاری میں مشغول رہنا چاہیے، اور وقت کو با مقصد کاموں میں لگانا چاہیے جن میں دینی و دنیوی یا کم از کم دنیوی فائدہ ہو، لہذا ایسے بے مقصد اور لایعنی کھیلوں سے بہرصورت اجتناب کرناچاہیے ۔

فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:

’’تاش کھیلنا یا لڈو کھیلنا بہت برا ہے، اور اگر اس پر ہار  جیت کی ہو تو جوا ہے اور بالکل حرام ہے، گناہِ کبیرہ سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے، ایک گناہ سے بچنے کے لیے دوسرے گناہ کو اختیار کرنا بھی جائز نہیں ہے، کامیاب مؤمنین کی شان اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یوں بیان کی ہے:

 {وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ} 

 کامیاب مؤمنین وہ ہیں جو لہو ولعب سے اعراض کرتے ہیں۔

حضرت شیخ الہندؒ لکھتے ہیں کہ:

’’خود تو لہو ولعب میں مصروف نہیں ہوئے، بلکہ اگر کوئی اور شخص بھی لہو ولعب میں مصروف ہو تو اس سے بھی اعراض کرتے ہیں‘‘۔

  (ماخوذ از فتاویٰ مفتی محمود ج: 11، ص: 259، باب الحظر والاباحۃ، ط: اشتیاق پریس لاہور)

نیز حدیث شریف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

"انسان کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس چیز کو چھوڑ دے جو بے فائدہ ہے۔ [مالک، احمد]"

ایک اور حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

" یاد رکھو! انسان جس چیز کو لہو ولعب (یعنی محض کھیل اور تفریح) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے، مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا، اپنے گھوڑے کو سدھارنا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل وتفریح کرنا، یہ سب چیزیں حق ہیں۔(ترمذی، ابن ماجہ)"

لہذا صورتِ مسئولہ میں لڈو جیسے  بے مقصد کھیل میں بچوں کو نہ لگایا جائے، بلکہ تفریح کے لیے بچوں کو ایسے کھیل بتائے جائیں جن میں جسمانی ورزش ہو اور وہ صحت کے لیے مفید ہوں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507101621

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں