1۔ ڈائپر بچے کی ضرورت کی چیز شمار ہوگی یا والدین کی آسانی کی چیز شمار ہوگی یعنی بچوں کے پیسوں سے ان کے ڈائپر خرید سکتے ہیں؟
2۔ کیابچے کے لیے اس کے پیسوں سے اعلی قسم کے کپڑے خرید سکتے ہیں؟
3۔اگر بچوں کے پیسوں سے خریدے گئے کپڑے پُرانے ہو جائیں اور والدین وہ کپڑے دوسرے بچوں کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہوں تو کیا یہ کر سکتے ہیں کہ خریدنے کی نیت سے ان کپڑوں کے بقدر رقم بچوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیں اور کپڑے دوسرے بچوں کے استعمال میں لے آئیں؟
4- بچے کی رقم سے خریدی گئی کھانے کی چیز کو اس کے ساتھ کھا سکتے ہیں؟ اگر کھانے کے بعد اس کے بقدر رقم اس کے لیے سنبھال دیں (یعنی یہ کھانا تربیت کے مقصد سے نہیں، بلکہ ویسے ہی کھا لیا لیکن ساتھ میں پیسے بھی رکھ دیے)۔
1۔بچوں کے پیسوں سےان کے ڈائپر خرید سکتے ہیں،یہ بچوں کی ضرورت کی چیز ہے، کیوں کہ اگر بچے کو پیمپر نہ پہنایا جائے تو بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں، مثلاً بچے بستر پر پیشاب کردیتے ہیں جس کی وجہ سے بستر ناپاک ہوجاتاہےاور اسی طرح والدین کی گود میں پیشاب پاخانہ کردیتے ہیں، خاص کر سردیوں میں بچوں کو مسلسل پانی سے دھویا جائے تو ٹھنڈ لگنے کا خطرہ ہے،جس سے بچے بیمار بھی ہوجاتے ہیں۔
2۔بچوں کا مال اگر اتنا زیادہ ہو کہ اس میں اعلی قسم کے کپڑے خریدنے کی گنجائش ہے تو اعلی کپڑے ان کے لیے خریدسکتے ہیں،ورنہ درمیانہ قسم کے کپڑے خریدیں،اس بات کاضرور خیال رہے کہ بچوں کے لیے ایسا لباس وغیرہ ہرگز نہ خریداجائے، جس میں غیروں (کفار،فساق) کے ساتھ مشابہت ہو۔
3۔ جی ہاں ! نابالغ بچوں کے مال سے خریدےگئےکپڑے جب پرانے ہو جائیں تو ان سے خرید کر اپنی ملکیت بنا نے کے بعد دوسرے بچوں کے استعمال میں لا نادرست ہے۔
4 ۔بچے کی رقم سے خریدی گئی کھانے کی چیز میں سے اس کے والدین اور بھائیوں وغیرہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے،ہاں اگر اس چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو کھانے کے بعد اس کے بقدر رقم ان کے لیے سنبھال کر رکھ دیں تو ایسا کرنا جائز ہوگا،خود ان کی رقم سے لینا ہو تو بقدر ضرورت لیں ،کسی اور نے ہدیہ کی تو دینےوالے سے ہی پہلےبقایا کے استعمال کی اجازت لے لیں،مباح ہونے کے بعد کھائیں، یا یہ صورت اختیار کریں کہ جب بعد میں بچے کو کوئی چیز اپنی ذاتی رقم سے دیں تو اس میں اس استعمال کردہ چیز کے عوض کی نیت کرلی جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"لا يجوز أن يهب شيئا من مال طفله ولو بعوض لأنها تبرع ابتداء.
و يباح لوالديه أن يأكلا من مأكول وهب له، و قيل: لا، انتهى، فأفاد أن غير المأكول لايباح لهما إلا لحاجة وضعوا هدايا الختان بين يدي الصبي فما يصلح له كثياب الصبيان فالهدية له، و إلا فإن المهدي من أقرباء الأب أو معارفه فللأب أو من معارف الأم فللأم، قال هذا لصبي أو لا، و لو قال: أهديت للأب أو للأم فالقول له، و كذا زفاف البنت، خلاصة. و فيها: اتخذ لولده أو لتلميذه ثيابًا ثم أراد دفعها لغيره ليس له ذلك ما لم يبين وقت الاتخاذ أنها عارية، و في المبتغى: ثياب البدن يملكها بلبسها بخلاف نحو ملحفة و وسادة. (قوله: وهب له) قال في التتارخانية روي عن محمد نص أنه يباح. وفي الذخيرة: وأكثر مشايخ بخارى على أنه لا يباح.وفي فتاوى سمرقند: إذا أهدي الفواكه للصغير يحل للأبوين الأكل منها إذا أريد بذلك الأبوان لكن الإهداء للصغير استصغارا للهدية اهـ. قلت: وبه يحصل التوفيق، ويظهر ذلك بالقرائن، وعليه فلا فرق بين المأكول وغيره بل غيره أظهر فتأمل، (قوله: فأفاد) أصله لصاحب البحر وتبعه في المنح (قوله: إلا لحاجة) قال في التتارخانية: وإذا احتاج الأب إلى مال ولده فإن كانا في المصر و احتاج لفقره أكل بغير شيء و إن كانا في المفازة و احتاج إليه لانعدام الطعام معه فله الأكل بالقيمة اهـ."
( کتاب الھبة، 696/5، ط: سعید)
فتاوی قاضیخان میں ہے:
"رجل اتخذ ثياباً لولده الصغير ثم أراد أن يدفع إلى ولد له آخر لم يكن له ذلك، لأنه لما اتخذ ثياباً لولده الأول صار ملكاً للأول بحكم العرف فلا يملك الدفع إلى غيرهإالا إذا بين عند اتخاذه للأول أنه عارية فحينئذ يملكه لأن الدفع إلى الأول يحتمل الإعارة فإذا بين ذلك صح بيانه.....ولا يجوز للأب أن يهب شيئاً من مال ولده الصغير بعوض وغير عوض لأنها تبرع ابتداء."
( کتاب الھبة، فصل في هبة الوالد لولده والهبة للصغير، 151/3، ط: دار الكتب العلمية )
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان للصغير عقار، أو أردية، أو ثياب، واحتيج إلى ذلك للنفقة كان للأب أن يبيع ذلك كله وينفق عليه كذا في الذخيرة."
(كتاب الطلاق، باب في النفقات،562/1، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102553
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن