بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

یتیم بچی کی نانی اگر بچی کو اذیتیں پہنچاتی ہے، اور بہتر ماحول مہیا نہیں کرتی تو اس کا کیا حکم ہے؟


سوال

میری بیوی کے انتقال کو آٹھ مہینے ہوگئے ہیں، انتقال کے وقت ہماری ایک بیٹی ڈیڑھ سال کی تھی، میرے سسر دار الافتاء بنوری ٹاؤن سے فتویٰ لے گئے تھے کہ پرورش کا حق نانی کو ہے، اور مجھ سے میری بیٹی کو لے لیا، اب پانچ مہینوں سے بیٹی ان کے پاس ہے، اور انہوں نے اس کو قیدی بناکر رکھا ہوا ہے، وہاں اس کی ہم عمر کوئی بچی بھی نہیں ہے، وہ وہاں اکیلی روتی ہے، مجھے بھی  ملنے نہیں دیتے، اور نہ ہی مجھے اسے لانے دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمارا حق مل گیا ہے، تمہارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، میری ساس، سسر کی عمر پینسٹھ، ستر سال ہے، دونوں بیمار رہتے ہیں، ایک سالی ہے، جو کام پر جاتی ہے اور شام کو آتی ہے، میری سالی کے دو بیٹے ہیں، جن کا آنا جانا اس گھر میں ہے، اور میری بیٹی گھر میں اکیلی ہوتی ہے، اس انٹرنیٹ او ر عریانی کے ماحول میں میں اس کو اکیلا کیسے چھوڑ دوں؟ ساس، سسر اور سالی دھمکی دیتے ہیں کہ تمہیں گھر میں گھسنے نہیں دیں گے، ٹانگیں توڑ دیں گے، پولیس بلا لیں گے، اس ساری صورتِ حال میں اگر میری بیٹی کو کچھ ہوجائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ لہذا مہربانی فرما کر اپنے فتوے پر نظرِ ثانی فرمائیں۔

وضاحت:میری والدہ کا انتقال ہوچکا ہے، میری پانچ بہنیں ہیں، جن میں سے تین ہمارے محلے میں رہتی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ چھوٹے بچوں کی پرورش کا حق ان کی والدہ کے نہ ہونے کی صورت میں نانی کو  حاصل ہوتا ہے، بشرط یہ  کہ وہ بچوں کی پرورش کی ذمہ داری شفقت سے انجام دیں اور اس کی تربیت کے لیے مناسب اور ساز گار ماحول مہیا کریں، ایسا نہ کرنے کی صورت میں نانی سے پرورش کا حق ساقط ہو کر شرعی اعتبار سے بچی کی دادی کو حاصل ہوتا ہے، دادی کی عدم موجودگی میں  حقیقی بہن،پھر ماں شریک بہن، پھر باپ شریک بہن، اس کے بعد حقیقی بہن کی بیٹی، اس کے بعد ماں شریک بہن کی بیٹی ، اس کے بعد حقیقی خالہ،   اس کے بعد ماں کے اعتبار سے خالہ، اس کے بعد باپ کے اعتبار سے خالہ  وغیرہ الخ  کو منتقل ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کی عمر نو سال ہوجائے تو اس کی پرورش کا حق والد کو حاصل ہوتا ہے، لہٰذا  صورتِ مسئولہ میں سائل کی بچی کی پرورش سائل کی  ساس (بچی کی نانی) کو ہی حاصل ہے، تاہم نانی  اور  سسرال والوں پر لازم ہے کہ بچی کو ہر طرح کی ذہنی و جسمانی پریشانی  پہنچانے سے گریز کریں اور  اس کے لیے اچھا ماحول مہیا کریں، بہتر تربیت کرنے کی کوشش کریں، اگر وہ ایسا نہیں کرتے اور سائل کو یقین ہو کہ  بچی ان کے ہاتھوں اذیتوں میں مبتلا ہے، اور بجائے اچھی تربیت پانے کے اس کو غیر مناسب ماحول سے واسطہ پڑا ہے تو ایسی صورت  سائل کو چاہیے کہ عدالت سے اس سلسلے میں رجوع کرے  ۔

نیز  بچوں کو ان کے باپ سے ملاقات نہ کرنے دینا  شرعا جائز نہیں ہے، بلکہ انتہائی قبیح حرکت ہے ، لہٰذا  سائل کے سسرال والوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ سائل کو بچی سے ملاقت کرنے سے روکیں،  سائل کو چاہیے کہ ان  کے ساتھ مل کر  کوئی دن طے کر لے جس میں سائل کے ساتھ ملاقات کرائی جائے اگر پھر بھی ممکن نہ ہو تو  سائل کو چاہیے کہ خاندان کے با اثر افراد سے درخواست کر کے ان سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرے، اگر اس سے معاملہ حل نہیں ہوتا تو سائل عدالت سے رجوع کرے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده."

(کتاب الطلاق، باب الحضانہ، ج:3، ص:571، ط:سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"ذهب الحنفية إلى أن أم الأم تلي الأم في الحضانة إذا سقطت حضانة الأم لمانع، ثم أم الأب وإن علت، ثم الأخت لأبوين، ثم الأخت لأم، ثم الأخت لأب، ثم بنت الأخت لأبوين، ثم لأم، ثم الخالات لأبوين، ثم لأم، ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب (وتأخيرها عن الخالات هو الصحيح) . ثم بنات الأخ لأبوين، ثم لأم، ثم لأب، ثم العمات لأبوين، ثم لأم، ثم لأب، ثم خالة الأم، ثم خالة الأب، ثم عمات الأمهات والآباء، ثم العصبات من الرجال بترتيب الإرث، فيقدم الأب، ثم الجد، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم بنوه كذلك، ثم العم، ثم بنوه. وإذا اجتمعوا قدم الأورع ثم الأسن، ثم إذا لم يكن عصبة انتقل حق الحضانة لذوي الأرحام الذكور إذا كانوا من المحارم، فيقدم الجد لأم، ثم يقدم الأخ لأم، ثم لابنه، ثم للعم لأم، ثم للخال لأبوين، ثم للخال لأم، فإن تساووا فأصلحهم، ثم أورعهم ثم أكبرهم."

(حضانة، المستحقون للحضانة، ج:17، ص:302-303، دار السلاسل)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأنت علمت أن سقوط الحضانة ... لدفع الضرر عن الصغير، فينبغي للمفتي ‌أن ‌يكون ‌ذا ‌بصيرة ليراعي الأصلح للولد، فإنه قد يكون له قريب مبغض له يتمنى موته ويكون زوج أمه مشفقا عليه يعز عليه فراقه فيريد قريبه أخذه منها ليؤذيه ويؤذيها، أو ليأكل من نفقته أو نحو ذلك، وقد يكون له زوجة تؤذيه أضعاف ما يؤذيه زوج أمه الأجنبي وقد يكون له أولاد يخشى على البنت منهم الفتنة لسكناها معهم، فإذا علم المفتي، أو القاضي شيئا من ذلك لا يحل له نزعه من أمه لأن مدار أمر الحضانة على نفع الولد، وقد مر عن البدائع: لو كانت الإخوة والأعمام غير مأمونين على نفسها، أو مالها لا تسلم إليهم.

وقدمنا في العدة عن الفتح عند قوله إن المختلعة لا تخرج من بيتها في الأصح أن الحق أن على المفتي أن ينظر في خصوص الوقائع، فإن علم عجزها عن المعيشة إن لم تخرج أفتاها بالحل لا إن علم قدرتها."

(کتاب الطلاق، باب الحضانہ، ج:3، ص:565، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں