بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بازار سے سامان لا کر منافع کے ساتھ فروخت کرنا


سوال

میرا اپنا پارلر کا کام ہے،  اور لوگ مجھ سے میک اپ کا سامان منگواتے ہیں،  میں اپنے پیسوں سے بازار سے خرید کر لاتی ہوں اور پھر میں کچھ منافع پر آگے بیچ دیتی ہوں توکیا یہ منافع جائز ہے؟

جواب

آپ جن  لوگوں کے لیے بازار سے سامان لے کر آتی ہیں  اگر ان لوگوں کو معلوم ہے کہ  آپ منافع  رکھ  کر سامان آگے فروخت کرتی ہیں  یا آپ کے بارے میں یہ بات معروف و مشہور ہے کہ آپ منافع کے ساتھ یہ کام کرتی ہیں تو آپ کے لیے یہ منافع حلال ہو گا،  لیکن اگر اُن لوگوں کا خیال یہ ہو کہ آپ منافع رکھے بغیر  بطورِ وکیل اُن کے لیے سامان لے کر آتی ہیں  تو ایسی صورت میں ضروری ہو گا کہ آپ اُن کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ میں منافع رکھ کر سامان فروخت کرتی ہوں، پھر آپ کے لیے منافع حلال ہو گا۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل ...لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالة، الباب الثالث،الفصل االاول،المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں