بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بازار کی مسجد میں دوسری جماعت کرانا


سوال

بازار کی مسجد میں دوسری  جماعت کرانا جائز ہے یا نہیں؟ دلیل کے  ساتھ بیان  فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں وہ مسجد جہاں آبادی ہو، جس میں امام مؤذن مقرر ہوں  اور جماعت کے اوقات بھی متعین ہوں اور پنج وقتہ نما ز باجماعت  اداکی جاتی  ہو  تو یہ مسجد محلہ ہے اگرچہ وہاں بازار بھی ہو، لہذا ایسی مسجد میں ایک مرتبہ اذان واقامت کے ساتھ اہلِ مسجد  کا جماعت  کے ساتھ نماز اداکرلینے کے بعد، اس میں  دوبارہ نماز کےلیے جماعت کرانامکروہ ہے،البتہ ایسی مساجد جو مستقل آبادی میں نہیں بلکہ مسافر  اور راہ گزاروں کے لیے  راستوں پر بنی ہوئی  ہیں اور ان کے لیے  امام مقرر نہیں ہوتا، جہاں مسافر  آکر اپنی جماعت کراتے ہیں ، اس قسم کی مساجد میں دوسری جماعت جائز ہے۔

مصنف لابن ابي شيبة میں ہے:

"عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ، إذا دخلوا المسجد، و قد صلي فیه، صلوا فرادي."

(کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، و لایجمعون، 5 / 55، رقم: 1788، ط: مؤسسة علوم القرآن جدید)

الدرالمختار میں ہے:

"و يكره تكرار الجماعة بأذان و إقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن."

(کتاب الصلوۃ ، باب الإمامة  1/ 552،ط:سعید)

ردالمحتار میں ہے:

"والمراد بمسجد المحلة ما له إمام و جماعة معلومون كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع."

(کتاب الصلوۃ، باب الإمامة، 1/ 553،ط : سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

جواب :"جس مسجد میں کہ پنج وقتہ جماعت اہتمام وانتظام سے ہوتی ہو ،اس میں امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک جماعت ثانیہ مکروہ ہے؛ کیوں کہ جماعت دراصل پہلی جماعت ہے،اور مسجد میں ایک وقت کی فرض نما زکی ایک ہی جماعت مطلوب ہے،حضورِ انورﷺکے زمانہ مبارک اور خلفائے اربعہ وصحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں مساجد میں صرف ایک ہی مرتبہ جماعت کا معمول تھا، پہلی جماعت کے بعد پھر جماعت کرنے کا طریقہ اوررواج نہیں تھا، دوسری جماعت کی اجازت دینے سے پہلی جماعت میں نمازیوں کی حاضری میں سستی پیدا ہوتی ہے اور جماعت اولیٰ کی تقلیل لازمی ہوتی ہے ؛ اس لیے جماعت ثانیہ کو حضرت امام صاحبؒ نے مکروہ فرمایا اور اجازت نہ دی۔اور جن ائمہ نے اجازت دی انہوں نے بھی اتفاقی طور پر جماعتِ اولیٰ سے رہ جانے والوں کو اس طور سے اجازت دی کہ وہ اذان واقامت کا اعادہ نہ کریں اور پہلی جماعت کی جگہ بھی چھوڑ دیں تو خیر پڑھ لیں ،لیکن روزانہ دوسری جماعت مقرر کرلینا اور اہتمام کےساتھ اس کو ادا کرنا اور اس کے لیے تداعی یعنی لوگوں کو بلانااور ترغیب دینا یہ تو کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ،نہ اس کے لیے کوئی فقہی عبارت دلیل بن سکتی ہے ،یہ تو قطعاً ممنوع اور مکروہ ہے۔"

(کتاب الصلوۃ   3/ 140،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102337

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں