بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بازار کی مسجد میں مغرب کی اذان کے بعد تاخیر کرنے کا حکم


سوال

 ایک آدمی بولتا ہے کہ مغرب کی آذان کے بعد  تاخیر کرنا ہوگا مقتدیوں کی رعایت میں ،یہ بازار كي مسجد ہے، تو کیا یہ صحیح ہے؟ اور وہ یہ بھی کہتاہے کہ سعودی عرب میں تو کتنی تاخیر کرکے مغرب کی نماز ادا کی جاتی ہے ،تو یہاں کیوں نہیں ہوگا؟ تو اس کا جواب کیا ہے؟

جواب

 عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی  نماز اور اذان میں اتنی تاخیر  کرنی چاہیے کہ   ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر  وقفہ ہوجائے،نیز اگر قدر ِرکعتین سے کم (یعنی دو  منٹ تک) بھی تاخیر کی جائےتب بھی کوئی کراہت نہیں، ہاں اگرقدرِ رکعتین یا اس سے   زیادہ  تاخیر کی جائے تو ایسا کرنا بتصریحات فقہاء مکروہِ تنزیہی ہے، اور   اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں  مکروہِ تحریمی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  مسجد میں لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے  اگر  اذان اور ااقامت کے درمیان اتنا وقفہ ہو کہ اس میں دو رکعت ادا نہیں کی جاسکتی ہو تو اتنے وقفہ کی گنجائش ہے، تاہم اگردو رکعت ادا کرنے کے بقدر (ڈھائی  سے تین منٹ) یا اس سے زیادہ تاخیر کی جائے  تو یہ خلافِ اولیٰ ہے، ایسی صورت میں اتنی تاخیر کرنے کے بجائے دکان داروں کو جلدی آنے کی ترغیب دی جائے۔

باقی سعودی عرب میں اکثریت حنابلہ کی ہے اور ان کے وہاں مغرب میں فرض سے پہلے دو رکعت نفل کا بھی معمول ہے ، اس لیے وہ اذان کے بعد دو رکعت کے لیے وقفہ کرتے ہیں،جب کہ احناف کے یہاں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے اور بلا عذر تاخیر کراہت سے خالی نہیں،اذان کے فوراً بعد دو، تین آیتوں کے بقدر وقفہ کرکے نماز کھڑی کردی جاتی ہےاور اگر کثرتَ جماعت کی مصلحت کے پیشِ نظر تاخیر کرنی ہو تو بقدر دو منٹ وقفہ دیا جاسکتا ہے، اس سے زیادہ وقفہ دینا مناسب نہیں،لہذا سعودی عرب کے احوال کو پاکستان پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔

"المحيط البرھانی" میں ہے:

"قال في «الجامع الصغير» : ويجلس بين الأذان والإقامة إلا في المغرب، وهذا قول أبي حنيفة، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: يجلس في المغرب أيضاً جلسةً خفيفةً، يجب أن يعلم بأن الفصل بين الأذان والإقامة في سائر الصلوات مستحب.والأصل في ذلك قوله عليه السلام لبلال: «اجعل بين أذانك وإقامتك مقدار ما يفرع الأكل من أكله، والشارب من شربه» ، واعتبر الفصل في سائر الصلوات بالصلاة، حتى قلنا: إن في الصلوات التي قبلها تطوع مسنون أو مستحب، فالأولى للمؤذن أن يتطوع بين الأذان الإقامة.جاء في تفسير قوله تعالى: {ومن أحسن قولاً ممن دعآ إلى الله وعمل صٰلحاً} (فصلت: 33) أنه المؤذن يدعوا الناس بأذانه ويتطوع بعده قبل الإقامة، ولم يعتبر الفصل في المغرب بالصلاة؛ لأن الفصل بالصلاة في المغرب يؤدي إلى تأخير المغرب عن أول وقته، وتأخير المغرب مكروه، وقال النبي عليه السلام: «لا تزال أمتي بخير ما لم يؤخروا المغرب إلى اشتباك النجوم»، ويؤيده قوله عليه السلام: «بين كل أذانين صلاة إلا المغرب» ، وأراد بالأذانين الأذان والإقامة، وإذا لم يفصل بالصلاة في المغرب يتأدى بفصل، قال أبو يوسف ومحمد: يفصل بجلسة خفيفة؛ لأن الجلسة صالحة للفصل. ألا ترى أنها صلحت للفصل بين الخطبتين يوم الجمعة، فهنا كذلك، وقال أبو حنيفة: يفصل بالسكوت؛ لأن لما لم يفصل بالصلاة التي هي عبادة، لتكون أقرب إلى الأداء أبعد عن التأخير فلأن لا يفصل ... بعبادة أولى، والفصل يحصل بالسكوت حقيقةً، فلا حاجة إلى اعتبار الجلسة للفصل، ثم عند أبي حنيفة مقدار السكتة ما يقرأ ثلاث آيات قصار أو آية طويلة، وروي عنه أنه قال: مقدار ما يخطو ثلاث خطوات، وعندهما مقدار الجلسة ما جلس الخطيب بين الخطبتين من غير أن يطول، وتمكن مقعده على الأرض".

(كتاب الصلوة،ج:1،ص:346،ط:دار الكتب العلمية)

"فتاوی ہندیہ" میں ہے:

"وأما إذا كان في المغرب فالمستحب يفصل بينهما بسكتة يسكت قائما مقدار ما يتمكن من قراءة ثلاث آيات قصار. هكذا في النهاية فقد اتفقوا على أن الفصل لا بد منه فيه أيضا."

(كتاب الصلوة،ج:1،ص:57،ط:دار الفكر)

"حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار" میں ہے:

'' (قوله: إلی اشتباک النجوم) ظاهره أنها بقدر رکعتین لایکره مع أنه یکره أخذاً من قولهم بکراهة رکعتین قبلها۔ واستثناء صاحب القنیة القلیل یحمل علی ما هو الأقل من قدرهما توفیقاً بین کلام الأصحاب… واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروه تنزیهاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً"۔

 (كتاب الصلوة،ج:2،ص:34، ط:دار الكتب العلمية)

فقط الله اعلم


فتوی نمبر : 144407101304

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں