بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بعض وارثوں کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ ہو تو دوسرے وارثوں کا بھی حق ہے


سوال

والد صاحب اپنی زندگی میں بینک اکاؤنٹ صرف اپنے بیٹوں کے ساتھ جوائنٹ کر جائیں اور خود وفات پاجائیں تو  کیا شریعت کے مطابق بیٹی کلیم کر سکتی ہے اپنے والد محترم کے بینک اکاؤنٹ اور رقم پر؟ یا بیٹی ایسی صورت میں کلیم نہیں کر سکتی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں (بیٹوں کے ساتھ  جوائنٹ اکاؤنٹ میں جو رقم والد مرحوم کی ملکیت تھی ان پیسوں سمیت) والد مرحوم کی جائیداد میں بیٹی کا حصہ ہے، اسے محروم کرنا ناجائز ہے اور سخت گناہ کا سبب ہے، بیٹوں کو چاہیے کہ وہ ترکے میں سے بیٹی (بہن) کا حصہ ادا کریں۔

صحیح مسلم، باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيره، ۳/۱۲۳۰، دار إحياء التراث العربي – بيروت:

"حدثني حرملة بن يحيى، أخبرنا عبد الله بن وهب، حدثني عمر بن محمد، أن أباه، حدثه، عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن أروى خاصمته في بعض داره، فقال: دعوها وإياها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من أخذ شبرًا من الأرض بغير حقه، طوقه في سبع أرضين يوم القيامة» ، اللهم، إن كانت كاذبةً فأعم بصرها، واجعل قبرها في دارها، قال: " فرأيتها عمياء تلتمسالجدر تقول: أصابتني دعوة سعيد بن زيد، فبينما هي تمشي في الدار مرت على بئر في الدار، فوقعت فيها، فكانت قبرها".

ترجمہ : حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ سے روایت ہے کہ ارویٰ نے ان سے ان کے گھر کے بعض حصہ کے بارے میں جھگڑا کیا تو انہوں نے کہا:  اسے چھوڑ دو اور زمین اسے دے دو؛ کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے حق کے بغیر ایک بالشت بھی زمین لی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق ڈالیں گے۔

 اے اللہ! اگر یہ جھوٹی ہے تو اسے اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کے گھر میں بنا۔

راوی کہتے ہیں کہ میں نے اسے اندھا اور دیواروں کو ٹٹولتے دیکھا اور کہتی تھی:  مجھے سعید بن زید کی بد دعا لگ گئی ہے، اس دوران کہ وہ گھر میں چل رہی تھی گھر میں کنوئیں کے پاس سے گزری تو اس میں گر پڑی اور وہی اس کی قبر بن گئی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں