بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بعض مقتدیوں کا امام کو یوں لقمہ دینا کہ: تین رکعت ہوئی


سوال

مفتی صاحب! امام صاحب نے چار رکعت والی نماز میں تیسری رکعت پر سلام پھیر لیا، بعض مقتدیوں نے آواز لگائی کہ تین رکعت ہوئی، امام صاحب نے فورا اللہ اکبر کہا اور چوتھی رکعت  کے لیےکھڑے ہوگئے اور رکعت پوری کی اور سجدہ سہو کیا تو اب جن مقتدیوں نے آواز لگائی کہ تین رکعت ہوئی ان کی اور مجموعی طور پر نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جن مقتدیوں نے آواز لگائی کہ تین رکعت ہوئی، ان کی نماز تو فاسد ہوگئی ہے اورمجموعی نماز کاحکم یہ ہے کہ اگر امام کو خود سے یاد آگیا تھا کہ اس کی ایک رکعت رہ گئی ہے اور اس نے ان لوگوں کے مذکورہ جملے کے بجائے اپنے گمان پر ایک رکعت مزید ملائی تھی یا امام نے ان مقتدیوں کے بجائے کسی ایسے مقتدی کا لقمہ لیا جس نے گفتگو  کے بجائے تسبیح پڑھ کر  اپنی دھیان کی بنیاد پر لقمہ دیا تھا تو امام اور دیگر مقتدیوں کی نماز درست ہے۔ اور اگر امام نے بھی انہیں مقتدیوں کی بات پر یقین کرکے ایک رکعت مکمل کی یا تسبیح سے لقمہ دینے والے مقتدیوں نے اپنی دھیان کے بجائے  بات کرنے والے مقتدیوں کی بات پر اعتماد کرکے امام کو  لقمہ دیا تھا  تو بہر دو صورت یہ خارجِ نماز سے لقمہ لینا ہے، اس لیے ایسی صورت میں امام اور کسی بھی مقتدی کی نماز نہیں ہوئی، سب پر اعادہ لازم ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

ولو سلم مصلي الظهر على رأس الركعتين على ظن أنه قد أتمها، ثم علم أنه صلى ركعتين، وهو على مكانه - يتمها ويسجد للسهو أما الإتمام فلأنه سلام سهو فلا يخرجه عن الصلاة.وأما وجوب السجدة فلتأخير الفرض وهو القيام إلى الشفع الثاني.

(كتاب الصلاة، فصل بيان سبب وجوب سجود السهو (1/ 164)،ط.  دار الكتب العلمية، الطبعة: الثانية، 1406هـ - 1986م)

الجوہرة النیرہ میں ہے:

( قوله : فإن تكلم في صلاته عامدا أو ساهيا بطلت صلاته ) يعني كلاما يعرف في متفاهم الناس.

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة (1/ 76)،ط. مكتبه حقانيه، ملتان باكستان)

فتاوی شامی میں ہے:

قوله ( وكذا الأخذ ) أي أخذ المصلي غير الإمام بفتح من فتح عليه مفسد أيضا كما في البحر عن الخلاصة أو أخذ الإمام بفتح من ليس في صلاته كما فيه عن القنية. 

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة وما يكره (1/ 622)،ط. سعيد)

وفیہ ایضًا:

فإذا صحت صلاة الإمام صحت صلاة المقتدي إلا لمانع آخر وإذا فسدت صلاته فسدت صلاة المقتدي لأنه متى فسد الشيء فسد ما في ضمنه. 

(كتاب الصلاة، باب الإمام (1/ 591)،ط. سعيد)

فقط، والله أعلم


فتوی نمبر : 144205201058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں