عبد الخالق کا انتقال ہوا، ورثاء میں 5 بیٹے 4 بیٹیاں ہیں ،بیوہ کا انتقال مرحوم عبدالخالق سے پہلے ہی ہو گیا تھا، مرحوم کے والدین کا انتقال بھی اسی طرح پہلے ہی ہو گیا تھا ،ترکہ میں ایک مکان ہے ،اس کی تقسیم مذکورہ ورثاء میں کیسے ہو گی ؟
نوٹ:
واضح رہے کہ عبد الخالق نے اپنی زندگی میں اپنے تین بیٹوں کو عاق کر دیا تھا ،کیا ان کو بھی وراثت میں سے حق ملے گا ؟
واضح رہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنی جائے داد سے عاق کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعاً اس کی کوئی حیثیت ہے، اگر کسی نے اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنی جائیداد سے عاق بھی کردیا، تو اس سے وہ اپنے شرعی حصہ سے محروم نہیں ہوگا، بلکہ شرعی حصہ بدستور اس کو ملے گا،لہذا صورتِ مسئولہ میں عبد الخالق مرحوم نے جن بیٹوں کو اپنی زندگی میں جائیداد سے عاق کیا تھا، اور وہ عبد الخالق کی موت کے وقت زندہ تھے ،تو انہیں بھی عبد الخالق مرحوم کے ترکہ میں سے حصہ ملے گا ۔
مرحوم کا ترکہ اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے حقوق ِمتقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہے، تو اس کو ادا کرنے کے بعد اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد باقی منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو14 حصوں میں تقسیم کر کے 2 حصے کر کے مرحوم والد کے ہر ایک بیٹے کو ،جب کہ ایک(1) حصہ کر کے ہر ایک بیٹی کو ملے گا ۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
میت(والد)مسئلہ :14
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
یعنی 100 روپے میں سے ہرایک بیٹے کو 14.285 روپے ،اور ہر ایک بیٹی کو 7.142 روپے ملیں گے ۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."
(کتاب الوصایا،ج:2،ص:926،ط:المکتب الإسلامی)
فتاوی شامی میں ہے:
"فقال في الخانية: إن الإستحقاق المشروط كإرث لا يسقط بالإسقاط. اهـ ."
(كتاب الوقف، مطلب في الإستدانة على الوقف، ج:4، ص:440، ط: سعید)
تکملة رد المحتار لمحمد علاء الدین میں ہے:
"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ... الخ."
(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی، ج:8، ص:116، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502100599
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن