بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بائع کا مشتری کو دودھ فروخت کرکے قرض دار کو اس کے قرض کے علاوہ ایک متعین نفع دینے کا حکم


سوال

عمرو نے دودھ بندی کے لیے باڑے کےمالک  بکر سے یہ طے کیا کہ سالانہ دس  لاکھ آپ کو دوں گا،آپ پورے سال ریٹ(قیمت) کے پابند ہوں گے،مثلاً فی من سات ہزار کا ہوگا، سال کے آخر میں یہ دس لاکھ مجھے واپس کرنے ہوں گے،اس میں سے کوئی کٹوتی نہیں ہوگی،پھر عمرو نے دوسرے شخص زید سے فی من سات ہزار تین سو روپے فی من  کے ساتھ سودا  کیا،اب مسئلہ یہ ہے کہ عمرو عارضی طور پر درمیان سے نکل گیا،یہ معاملہ بکر اور زید کے مابین سات ہزار تین سو کے  حساب سے پورے سال چلے گا، اس میں تین سو روپے عمرو کے ہوں گے، نیز یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اگر زید نے وقت پر بکر کو رقم  ادا نہیں کی تو کٹوتی عمرو کے دس لاکھ روپے سے ہو گی، اس میں دو خدشات مزید یہ بھی ہیں  کہ باڑے والا اگر بھاگ گیا تو عمرو کے دس لاکھ کا نقصان ہوگا،یہ بھی ممکن ہے کہ بکر ان  پیسوں سے پورا سال کاروبار بھی کرسکتا ہے،اب پوچھنا یہ ہے کہ شرعاً اس طرح  کاروبارکرنا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں دودھ کی اصل خرید وفروخت بکر (باڑے والا) اور زید کے درمیان ہوئی ہے،اور عمرو بکر سے دس لاکھ روپے کے بدلے ہر من میں  تین روپے وصول کررہا ہے، یعنی دس لاکھ دے کر ہر من کے بدلے تین سو روپے لے رہا ہے، اور عمرو کے دس لاکھ محفوظ  ہیں، جو سال کے آخری میں بکر عمرو کو واپس کرنے کا پابند ہے،لہذا بکر کا زید کو دودھ فروخت کرکے ہر من میں تین سو روپے  عمروکو دینا اور عمرو کا تین سو روپے لینا سود ہے اور سود ناجائز اور حرام ہے،اس کاروبار سے بچنا لازم ہے۔

قرآن پاک میں ہے:

”{وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}.“[ البقرۃ 275)

ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔“(بیان القرآن)

وفيه ايضاً:

”{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}.“(البقرة، 278۔279)

”ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ  کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے۔“(بيان القرآن)

مسلم شریف میں ہے:

”عن جابر قال: ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم أكل الربا، وموكله، وكاتبه، وشاهديه، وقال: هم سواء.“

’’ترجمه: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور دینے والے اور لکھنے والے اور گواہی دینے والے پر لعنت کی ہے اور فرمایا یہ سب لوگ اس میں برابر ہیں یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں  اگرچہ مقدار اور کام میں مختلف ہیں۔(مظاہر حق)۔‘‘

(كتاب المساقاة، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، ط: دار إحياء التراث العربي)

سنن  الدر قطنی میں ہے:

”عن عبد الله بن حنظلة أن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال: الدرهم ربا ‌أشد ‌عند ‌الله تعالى من ستة وثلاثين زنية في الخطيئة.“

”ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے ( کے گناہ )سے زیادہ ہے۔“

(كتاب البيوع، 405/3، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، 166/5، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں